دکن میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت قدیم ، سماج کی ہر تقریب میں گیتوں کا رواج

محترمہ ثمینہ بیگم کی کتاب ڈھولک کے گیتوں کا رسم اجراء ، پروفیسر ایس اے شکور ، محترمہ نسیمہ تراب الحسن و دیگر کا خطاب
حیدرآباد ۔ 27 ۔ جنوری : ( پریس نوٹ ): محترمہ ثمینہ بیگم کی کتاب’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘ کی تقریب رسمِ اجراء /26جنوری محبوب حسین جگر ہال‘ روزنامہ سیاست عابڈس میں منعقدہوئی جس کی صدارت پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر/سکریٹری اردوا کیڈیمی تلنگانہ نے کی اور کتاب کی رسمِ اجراء انجام دی۔ اپنی تقریر میں انھوں نے ثمینہ بیگم کی محنت اور کاوش کو سراہا اور کہا کہ یہ کتاب ڈھولک کے گیتوں کی اہمیت قائم کرنے میں نہایت کامیاب ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی تحقیقی کام ہونا چاہئے کیونکہ ہم ترقی کے دور میں بے حد آگے بڑھنے کے باوجود کبھی کبھی لوٹ کر پیچھے کی طرف مڑ کر ماضی کی روایتوں کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے اپنے سلسلہ خطاب میں مزیدکہا کہ دکن میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت نہایت قدیم ہے یہاں کے سماج میں مختلف تقاریب مثلاً بچے کی ولادت، شادی بیاہ ، سالگرہ وغیرہ کے موقعوں پر ڈھولک کے گیت گائے جاتے تھے لیکن شہری زندگی کے پھیلائو اور مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے ہمارے سماج بالخصوص شہری زندگی میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں اُن کی وجہ سے ہم اپنی کئی تہذیبی روایت سے کٹ گئے ہیں اُن میں سے ایک ڈھولک کے گیت بھی ہے۔ ثمینہ بیگم کی کتاب ’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘کی رسم اجراء کے موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں کیا۔بہ حیثیت مہمانِ خصوصی ماہر دکنیات پروفیسر نسیم الدین فریس نے کہا کہ لوک ادب یا لوک گیت کسی بھی سماجی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں لوک گیت ملتے ہیں اور ہربڑی زبان میں ادب کی تخلیق کا آغاز ہی لوک گیتوں سے ہوتا ہے۔اس موقع پرمقبول انشائنہ نگارمحترمہ نسیمہ ترا ب الحسن نے ثمینہ بیگم کا تعارف پیش کیا اور ان کی کتاب کی خوبیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ کتاب ڈھولک کے گیتوں کے موضوع پر دستایزی اہمیت کی حامل ہے۔ڈ اکٹر آمنہ تحسین اسوسی ایٹ پروفیسرو ڈائریکٹر مرکز برائے مطالعاتِ نسواں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے بہ حیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔

 

انھوں نے کہا کہ ڈھولک کے گیت لوک ادب کا ایک اہم سرمایہ ہے۔ خواتین کا یہ لسانی، ادبی اور تہذیبی سرمایہ کافی قدیم ہے اور اہم بھی۔ اس لیے کہ اُردو ادب کی شروعات میں صوفیائے کرام نے اپنی تعلیمات کو عام کرنے میں خواتین کے طرزِاظہار کو اپنایا تھا۔ ڈھولک کے گیت دراصل چکی نامے، لوری نامہ، اوکھلی موسل کے گیتوں کا ہی تسلسل ہے۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین نے کہا کہ ہم خواتین کو اپنی لسانی ، ادبی اور تہذیبی حصّہ داریوں پر فخر کرنا چاہئے ۔ انھوں نے ثمینہ بیگم کو خواتین کے زبانی ادب اور تاریخ و تہذیب کو ڈھونڈ نکالنے اور تحریر کرنے پر مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ دکن کا یہ سرمایہ ثمینہ کے ہاتھوں مستقبل میں بھی مرتب ہوگااور پامال ہونے سے بچ جائے گا۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے ثمینہ بیگم کی کتاب پر تبصرہ کیا جسے ڈاکٹر بدر سلطانہ نے پیش کیا انھوں نے اپنے تبصرے میںکہا کہ ڈھولک کے گیت جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیںموجودہ دور میں متعدد تفریحی ذرائع کی موجودگی اور مغربی تہذیب کے بڑھتے تسلط کے پیش نظر مستقبل میں ان گیتوں کے وجود وبقا سے متعلق خطرات و خدشات پیدا کردیئے ہیں۔ ثمینہ بیگم نے  کتاب میں بڑی محنت و جستجو اور عرق ریزی سے جمع کرکے صفحہ قرطاس پر محفوظ کردیئے ہیں۔ انھوں نے شہر حیدرآباد کے علاوہ مختلف شہروں، قریوں، دیہی علاقوں میں گھوم گھوم کر بڑی جانفشانی دیدہ ریزی اور کوشش و کاوش سے بہت سارے ڈھولک کے گیت اکٹھا کیے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت اس کتاب میں چند ہی گیت شامل کیے ہیں۔ امید کہ باقی گیتوں کے سرمایے کو بھی وہ کتابی شکل میں جلد ہی پیش کریں گی۔ابتداء میں حیدرآباد کی شاعرہ محترمہ تسنیم جوہر نے کتاب کی مصنفہ ثمینہ بیگم کا خاکہ پیش کیا اور بتایا کہ مصنفہ نے نہایت نامساعد اور ناموافق حالات میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور حصول ِ علم کے لیے بڑی محنت شاقہ کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے تعلیم سے مصنفہ کی دلچسپی کو خراج توصیف پیش کیا۔ محترمہ تسنیم جوہر نے جلسے کی کاروائی بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی ۔ آخر میں مصنفہ ثمینہ بیگم نے اپنے تمام اساتذہ سرپرستوں، بہی خواہوں اور جلسے کے شرکاء اور معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس جلسے میں حیدرآباد کی جامعات کے اساتذہ طلباء ، ریسرچ اسالر کے علاوہ باذوق خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔