دو ہاتھ نہ ہوں تو کیا ہوا میرے سینے میں قرآن مجید موجود ہے

حیدرآباد ۔ 27 ۔ دسمبر : کسی انسان میں عزم و حوصلہ ہو ارادے بلند اور منزل کو پانے کی خواہش اس کے دل میں موجزن ہوجائے شوق جنون کی حد تک پہنچ جائے تو اللہ تعالی اس کے لیے کامیابی و کامرانی کی راہیں کھول ہی دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا یہ نظام ہے کہ اگر کوئی انسان بصارت سے محروم ہوجائے تو اس کی دماغی صلاحیتیں اسی قدر بڑھا دیتا ہے کہ وہ بینائی والوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے اسی طرح قوت سماعت سے محروم لوگ بہترین سماعت رکھنے والوں سے کہیں زیادہ سننے سے زیادہ عمل کرنے والے بن جاتے ہیں ۔ جب کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہاتھوں اور پیروں سے محرومی کے باوجود زندگی کے ہر شعبہ میں صحت مند ہاتھوں و پیروں کے حامل افراد سے بازی لے جاتے ہیں ۔ غرض ہر چیز میں اللہ تعالی کی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ جس بندہ پر رحم و کرم کرنا چاہے اسے علم کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے ۔ قارئین ! آج ہم ایک ایسے لڑکے سے آپ کو واقف کرواتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے محروم ہے لیکن اس کے بلند عزائم ، ہمالیائی ارادے اور سب سے بڑھ کر علم دین حاصل کرنے کی جستجو و شوق کو دیکھ کر ہر کوئی رشک کرنے لگتا ہے ۔ اس کمسن لڑکے کا اپنی معذوری کے بارے میں کہنا ہے ’ میرے ہاتھ نہ ہوئے تو کیا ہوا میرے سینے میں قرآن مجید ہے ‘ ہم بات کررہے ہیں صابر نگر مراد نگر کے رہنے والے 15 سالہ محمد عمران کی جس نے حال ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا ہے ۔ بچپن سے ہی یہ لڑکا بڑی آزمائشوں سے گذرتا رہا ۔ ایک ایسی عمر میں جب دوسرے لڑکے اپنے والد کے گود میں بیٹھے اپنی معصوم حرکتوں سے ان کی خوشیوں میں اضافہ کرتے محمد عمران کے والد محمد بابر کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ یعنی بچپن میں ہی وہ والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے ۔ دو بہنوں کے اس اکلوتے بھائی کی زندگی کا چراغ اس وقت بجھتے بجھتے رہ گیا جب اس کی عمر صرف 5 سال تھی ۔

گھر کے قریب کھیلتے ہوئے وہ برقی ٹرانسفارمر کی زد میں آگیا اور شاک سرکٹ سے اس کے دونوں ہاتھ جھلس گئے ۔ 5 سالہ معصوم لڑکے کی تشویشناک حالت کو دیکھ کر نانا ، ماموؤں اور ماں نے اسے عثمانیہ ہاسپٹل منتقل کیا جہاں اس کی زندگی بچانے کے لیے دونوں ہاتھ کہنیوں سے کاٹ دئیے گئے ۔ اپنی اس حالت کے باوجود محمد عمران نے ہمت نہیں ہاری اور پوری شدت سے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا اور آج اللہ کے فضل و کرم سے وہ حافظ بن چکے ہیں اور عالم کورس میں داخلہ بھی لے لیا ہے ۔ محمد عمران کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کچھ لکھ سکتے ہیں ۔ یا کوئی اور کام کرسکتے ہیں ۔ تاہم اس لڑکے نے ہمارے سامنے نہ صرف مدرسہ کا بیاگ کھولا بلکہ اس میں سے قلم اور کاپی نکال کر لکھ کر بھی بتایا ۔ انہوں نے کہنی سے علحدہ کئے گئے ہاتھوں کے درمیان قلم کو رکھتے ہوئے لکھنا شروع کیا اور چند منٹوں میں پورا ایک صفحہ اپنی تحریر سے بھر دیا ۔ یہ لڑکا کافی ذہین ہے اس نے گرم گرم چائے پی کر بھی یہ بتادیا کہ ہاتھ یا پاوں نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنا محنتی اور پر عزم لوگوں کی علامت نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے بزدل ہی فرار ہوتے ہیں ۔ محمد عمران اپنے ماموں کے ساتھ رہتے ہیں ان کی دو بہنوں میں سے ایک بہن کی شادی ہوچکی اور دوسری بہن ڈگری کی طالبہ ہے ۔

تکمیل حفظ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ مدرسہ اسلامیہ تحفیط القران الکریم اولڈ فیل خانہ ملے پلی سے حفظ قرآن مجید کی تکمیل کی اور 29 دسمبر کو اس با صلاحیت لڑکے کی دستار بندی کی جائے گی ۔ اس مدرسہ کے بانی و ناظم حافظ محمد انظار الحق کے مطابق انہوں نے جب یہ مدرسہ شروع کیا تھا اس وقت محمد عمران کے بشمول صرف دو طلبہ نے اس میں داخلہ لیا تھا اور اب اس مدرسہ میں طلباء کی تعداد 160 تک جا پہنچی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ محمد عمران نے 4 سال میں حفظ قرآن کیا ہے اور وہ اس مدرسہ سے حفظ کرنے والے پہلے طالب علم ہیں اتوار کو منعقدہ جلسہ دستار بندی میں ڈاکٹر محمد ادریس انصاری ، جناب شجیع انصاری ، حضرت مولانا مفتی تجمل حسین قاسمی ، حضرت مولانا پروفیسر راشد نسیم ندوی ، حضرت مولانا مفتی عارف باللہ قاسمی صاحب کی موجودگی میں اس لڑکے کی دستار بندی کی جائے گی ۔ حافظ محمد انظارالحق کے مطابق محمد عمران کے حسن اخلاق سے ہر کوئی متاثر ہوجاتا ہے ۔ دوسرے لڑکے ان سے دوستی کے خواہاں رہتے ہیں ۔ محمد عمران نے بتایا کہ گھر والے بالخصوص ماں ان کی مدد کے لیے ہر لمحہ تیار رہتی ہیں ۔ اگرچہ وہ صبح 9 بجے سے سہ پہر ساڑھے تین بجے تک مدرسہ میں رہتے ہیں ۔ بعد کے اوقات میں کھیل کود میں بھی حصہ لیتے ہیں ۔ وہ کرکٹ بہت اچھا کھیلتے ہیں بہر حال محمد عمران عزم و حوصلہ کی ایک بہترین مثال اور ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو ہاتھ رکھنے کے باوجود بھی محنت سے جی چراتے ہیں ۔ حصول علم سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔۔