۸؍ جون ۲۰۱۲ء کو امریکہ کی سرزمین پر میں نے قدم رکھا اور تقریباً دو سال بعد ۴؍جون ۲۰۱۴ء کو نارتھ کیرولینا ریاست کے صدر مقام رالیہ سے نیویارک، نیویارک سے دہلی اور دہلی سے اپنے وطن عزیز حیدرآباد پہنچا۔
شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں سفر و ہجرت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ’’السفر قطعۃ من النار‘‘ کے بمصداق سفر آگ کی بھٹی ہے، جس میں انسان تجربات و صعوبات کے سرد و گرم اور شیریں و تلخ حالات سے دوچار ہوکر بنتا اور سنورتا ہے۔ امریکہ ایک بین الاقوامی منڈی ہے، جہاں مختلف ممالک کے باشندے، بھانت بھانت کے لوگ، مختلف تہذیب و ثقافت کے حامل، متنوع مزاج و ظرف کے افراد بستے ہیں۔ جس مقام پر میں مقیم تھا، وہاں اطراف و اکناف میں یمن، مصر، شام، اردن، فلسطین، افغانستان اور پاکستان کے لوگ رہائش پزیر تھے۔ مذہبی شخصیت سب کے لئے مرکزیت کی حامل ہوتی ہے۔ مذہبی امور میں ہر ملک کا باشندہ مذہبی رہنما سے رجوع ہوتا ہے اور اپنے تعلق و عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔
میرے لئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان تمام افراد سے ملاقات، ربط و ضبط، تعلق و مدارات سے ہر ملک کی تہذیب و تمدن، فکر و مزاج، عادات و اطوار اور راہ و رسم سے آگاہی ہوئی۔ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد، تاجرین، ڈاکٹرس، دانشور، کمپنیوں کے ملازمین، سماجی جہدکار اور مختلف قسم کے کام کرنے والے افراد و اشخاص سے ملاقاتیں رہیں، بالخصوص امریکیوں سے دیرینہ روابط و تعلقات رہے، جو ذہن کے دریچوں کو کشادہ اور وسیع بنانے میں ممد و معاون رہے، نیز چار مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے مقلد مسلمانوں سے تعلق رہا۔ مسائل کے افہام و تفہیم میں چاروں مذاہب کی رعایت ناگزیر ہوتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی طرح صرف فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا، جو کہ فی الواقعی مجھ جیسے طالب علم کے لئے حصول علم، ازدیاد معلومات اور وسعت فکر کا سنہرا موقع تھا۔ ایسے ماحول میں چاروں مذاہب کی مراعات کے ساتھ اپنے مسلک فقہ حنفی اور فقہ حنفی کے مطابق عمل کرنا اور اس کو نافذ کرنا ایک کٹھن امتحان تھا، لیکن فقہ حنفی پر عمل آوری دشوار نہ رہی، بلکہ معاملات وغیرہ میں تمام اہل اسلام کو بطور خاص غیر اسلامی ممالک میں فقہ حنفی کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
سب سے اہم خدمت یہ رہی کہ جانسٹن کاؤنٹی اور وین کاؤنٹی (تقریباً پچاس تا ساٹھ میل کی مسافت) میں صرف تین مساجد تھیں، جن میں سے ایک سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تھی، ماباقی دو مساجد میں میری خدمات رہیں اور تقریباً اسی (۸۰) مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو بنیادی اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا گیا۔ جو بچے سورہ فاتحہ سے واقف نہ تھے، پنجوقتہ نمازوں کے نام اور اوقات سے ناآشنا تھے، بنیادی عقائد و نظریات سے بے بہرہ تھے، ان کو نہ صرف اسلامی بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا گیا، بلکہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، بنیادی عقائد، توحید و رسالت، سابقہ انبیاء، کتب سماویہ، قرآن و حدیث، سنت و سیرت، قضاء و قدر، تکفین و تدفین، احوال قبر، حشر و نشر، حساب و کتاب، جنت و دوزخ کے علاوہ دیگر مذاہب و ادیان کے مقابل اسلام کی خصوصیات اور خوبیوں سے بھی آگاہ کیا گیا، تاکہ وہ خود اسلام کے مبلغ بن سکیں اور غیر قوم بطور خاص کرسچنس کے روبرو اسلام کے حقیقی پیغام کو بیان کرسکیں۔ اعزازی معلمات کی ایک ٹیم بناکر مختصر وقت میں ایک نسل کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا گیا، جو کہ میرے لئے سرمایۂ افتخار اور ذخیرۂ آخرت ہے۔
امریکہ جانے کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد یہ تھا کہ جدید طرز تدریس سے آگاہی ہو۔ دینی مدارس میں قدیم طرز تدریس اور قدیم نصاب تعلیم مروج ہے۔ موجودہ دور میں دنیوی مدارس میں نصاب تعلیم میں مواد کی پیشکشی میں ایک بین الاقوامی معیار مقرر ہے۔ اگر کتاب اس معیار پر نہ اترے تو اس کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا، اگرچہ مؤلف اعلی درجہ کا دانشور کیوں نہ ہو اور کتاب معلومات کا منبع کیوں نہ ہو۔ جب تک پیشکشی اور زبان کے استعمال میں جدید معیار ملحوظ نہ ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں، نیز دعوت و تبلیغ کے میدان میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم جس شخص کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، اس کی فکر اور رجحان کا پتہ ہو، اس کے غور و فکر اور سوچنے کے انداز سے واقفیت ہونا، اس کی فکر کی گہرائی اور طرز کو جانے بغیر اس کے روبرو اپنے انداز میں اسلام کی حقانیت کو بیان کرنا بالعموم نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا۔ بنابریں میں نے یہ ضروری سمجھا کہ سب سے پہلے عیسائی مذہب کو عیسائی کتابوں سے ان کے پروفیسرس اور ان کی کتابوں کی مدد سے سمجھا جائے، تاکہ ان کے سوچنے سمجھنے کے انداز و طریقہ سے واقفیت ہو اور ان ہی کے ذہن کے مطابق ان کے روبرو اسلام کے کمالات کو ان کی فہم کے مطابق پیش کرنے میں سہولت ہو۔ ان ہی اغراض و مقاصد کے تحت میں نے تین اہم کورسس Old Testament، New Testament اور World Religions کی تکمیل کی۔ بیک وقت مجھے جدید طرز تدریس، نصابی کتابوں کی طریقہ ترتیب، یہودیت، مسیحیت اور دیگر مذاہب عالم سے واقفیت کے ساتھ انگریزی زبان کو سیکھنے میں حد درجہ مدد ملی۔
کلاس کے دوران میں عمداً مختلف سوالات کرتا، بحث و مباحثہ میں حصہ لیتا اور موقع کی تلاش میں رہتا کہ کب اور کیسے متعلقہ درس میں اسلام کے نظریہ کو شامل کروں۔ تمام طلبہ میرے سوالات، اعتراضات، اشکالات اور توضیحات سے دنگ رہتے۔ بالآخر ایک لڑکی نے استاد سے سوال کیا کہ یہ کون شخص ہے؟ جو ہمارے مذہب سے متعلق اس قدر معلومات رکھتا ہے اور ہر مسئلہ پر اپنی رائے پیش کرتا ہے؟۔ چوں کہ معلم مذہب اسلام کی حقانیت اور معقولیت سے اچھی طرح واقف تھا، اس نے بڑے احترام سے میرا تعارف کروایا کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنما ہیں اور اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ کلاس کے بعد اس لڑکی نے استاد سے سوال کیا کہ بحیثیت عیسائی کیا اس کو قرآن مجید کے مطالعہ کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ انسٹرکٹر جواب دینے سے کترانے لگا اور میری طرف اشارہ کیا کہ یہ جواب دیں گے۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی مسلمان مجھ سے پوچھے کہ کیا وہ تورات و انجیل پڑھ سکتا ہے؟ تو ہم یہ جواب دیں گے کہ مسلمان کو توریت و انجیل پڑھنے کی قطعاً ضرورت نہیں، کیونکہ قرآن مجید ہدایت کے لئے کافی ہے اور قرآن کسی بھی مسئلہ میں ایک ہی نظریہ اور صد فیصد ٹھوس بات بیان کرتا ہے، اس کے برخلاف انجیل بذات خود پڑھنے والے کو شکوک و شبہات کا شکار بنا دیتی ہے۔ میرے اس جواب پر لڑکی نے استاد سے استفسار کیا کہ یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے، کیا وہ صحیح ہے؟ تو استاد نے جواب دیا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن میں کسی بھی مسئلہ میں اختلاف نہیں پایا جاتا اور انجیل ہم کو مشکوک کردیتی ہے۔
اسی استاد نے ایک مرتبہ مجھ سے خواہش کی کہ اس کو اسلام سے متعلق مختلف سوالات و اشکالات ہیں، وہ مجھے ظہرانہ پر کسی ہوٹل میں مدعو کرکے ان کی وضاحت چاہتا ہے۔ میں نے ان کو اور ایک پادری کو مسجد آنے کی دعوت دی اور ظہرانہ کا اہتمام کیا، جو حیدرآبادی ضیافت سے محظوظ ہوئے، کیونکہ بالعموم امریکیوں کے پاس ضیافت کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس نے سوالات کی ایک طویل فہرست بنائی تھی، یکے بعد دیگرے وہ سوالات کرتا رہا اور میں اس کی وضاحت کرتا گیا۔ قبر کے احوال پر گفتگو ہوئی تو میں نے کیفیت قبر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قبر میں تین سوالات رب، دین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہر شخص سے لازمی طورپر ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے سوال پر پادری متفکر ہوا، چوں کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو قلبی طورپر حقیقی رسول تسلیم کرتا ہے، لیکن ایمان نہیں لاتا، اس لئے وہ پریشان ہوا اور سوال کرنے لگا۔ اس کے سوال سے آج تک میں حیرت میں ہوں، وہ بڑی سادگی سے پوچھنے لگا کہ ’’کیا اس وقت کوئی شخص جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے یا نہیں؟‘‘ اور بڑی مایوسی سے خود جواب دینے لگا کہ ’’اس وقت کوئی شخص جھوٹ پر قدرت نہیں رکھ سکے گا‘‘۔
امریکہ میں ائمہ و خطباء کے طریقہ کار سے ہٹ کر میں نے امریکیوں سے دوستی بڑھانے، چرچس اور سینگاگ جانا شروع کیا اور مختلف چرچس میں اسلام کے متعلق لکچرس دیا، ان کے ہر سوال کا استقبال کیا اور نہایت متانت سے ان کے قلب و ذہن میں اٹھنے والے اسلام سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ یہ بات میرے لئے باعث فخر ہے کہ کئی امریکیوں نے مجھ سے اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلی مرتبہ کسی نے اسلام سے متعلق صحیح طورپر ہماری رہنمائی کی ہے اور ہمیں آپ جیسے اسکالر کی ضرورت ہے، جو ہمارے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر کو پیش کرے‘‘۔ وہ تصویر جس کو مغربی میڈیا نے مشتبہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور نہ ہی کوئی موقع کنوایا، یہی حقیقی ان کے جذبات تھے۔
بہرکیف دو سال دو پل میں بیت گئے، جب اپنے افراد خاندان اور دوست احباب سے ملا تو محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں دو سال بعد ان سے مل رہا ہوں، لیکن واپسی سے ایک دن قبل تین مساجد کے ذمہ داران نے ایک وداعی تقریب رکھی، جس میں مختلف مساجد کے ائمہ، ڈاکٹرس اور دانشور حضرات نے مخاطب کیا اور ان تینوں مساجد میں میری خدمات رہیں۔ تینوں کمیونیٹیز میری واپسی کے فیصلہ سے نہایت مایوس اور غمگین تھے، مجھے روکنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی، لیکن واپسی مقدر تھی۔ ڈاکٹر اور دانشور آبدیدہ ہونے کی وجہ سے اپنی تقریر مکمل نہیں کرسکے۔ امامت و خطابت، درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کی خدمات کو سراہا، بطور خاص کمیونیٹی میں اتحاد و اتفاق کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے جذبات کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے اپنے وطن حیدرآباد میں عزت و شہرت نصیب ہوئی، لیکن جو محبت امریکہ میں بطور خاص میری مسجد کے عرب مرد و خواتین سے حاصل ہوئی، وہ محبت مجھے اپنے وطن میں نہیں ملی۔ میری زبان سے نکلنے والا ایک ایک کلمہ ان کے لئے حرف آخر تھا اور میرا کسی بات پر خوشی کا اظہار کرنا ان کے لئے عید سے کم نہ تھا۔ جو چاہت، محبت اور احترام مجھے عرب کمیونیٹی سے حاصل ہوا، وہی میرا سرمایہ ہے اور ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت کو میں نے اپنی اولین ذمہ داری سمجھی اور آخرت میں جوابدہی کے تصور سے حتی المقدور کوشش کی۔ جو بھی مختصر خدمت انجام دی گئی، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول فرمائے اور جو کوتاہیاں ہوئی ہیں بطور خاص نسل مسلم کی تعلیم و تربیت میں، اللہ تعالی اس کو معاف فرمائے اور دامن عفو میں مجھ کو جگہ عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ طہ و یسین)