کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
دوہرے معیارات کیوں
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ سماج کے ہر طبقہ اور ہر گوشے کی جانب سے مسلمانوں کو پسماندگی کا شکار کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ اس قدر احتیاط کے ساتھ فرقہ پرستی کو ہندوستانی سماج کی جڑوں میں داخل کردیا گیا کہ مسلمان ‘ جو پہلے ہی حالات کے مارے ہوئے تھے اس جانب توجہ ہی نہیں دے سکے اور اس کے نتائج کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ زندگی کے ہر معاملہ میں مسلمانوں نے اپنے ملک ہندوستان کی خاطر بڑی سے بڑی قربانیاں دیں ‘ بے مثال کارنامے انجام دئے اور ملک کی سرحدات کی حفاظت میں خاص طور پر مسلمانوں نے جو رول ادا کیا ہے اس کی ساری دنیا معترف ہے ۔ حوالدار عبدالحمید نے 1965 کی ہند ۔ پاک جنگ میں سرحدات کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی تھی ۔ آج سارا ہندوستان اس سے واقف ہے اور یہی وجہ ہے کہ حوالدار عبدالحمید کو بعد از مرگ پرم ویر چکر کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ اتر پردیش کے غازی پور ضلع میں ایک درزی خاندان میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے ہندوستان ملک کی سرحدات کی حفاظت اس جانفشانی سے کی کہ ان کی شہادت کے تقریبا پانچ دہوں بعد بھی آج پورے احترام کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے ۔ ملک کو سائینس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی دینے اور دفاعی اعتبار سے خود مکتفی بنانے میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے جو کارنامے انجام دئے اس کی وجہ سے انہیں صدر جمہوریہ ہند کے جلیل القدر عہدہ پر فائز کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ زندگی کا شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جس میں مسلمانوں نے اس ملک کی خدمات کیلئے بے مثال خدمات انجام نہ دی ہوں۔ کوئی حکومت ‘ کوئی ادارہ اور کوئی تنظیم ایسی نہیں ہوسکتی جو اس ملک کیلئے مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرنے میں عار محسوس کرے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کارناموں کو فرقہ پرستی اور تعصب کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے انہیں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوششیں کی جائیں ۔ یہ کوششیں اب عروج پکڑتی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کے کارنامے شمار کرنے والوں کو فرقہ پرست قرار دیا جا رہا ہے ۔
سیاسی جماعتیں تو فرقہ پرستی کا سہارا لینے سے کبھی گریز نہیں کرتیں اور خاص طور پر انتخابات اگر ہوں تو یہ روش اور بھی شدت اختیار کرجاتی ہے ۔ اتر پردیش کے وزیر اعظم خان نے جب کارگل میں ہوئی جنگ کے تعلق سے تبصرہ کیا اور اس جنگ میں مسلمان فوجیوں کے رول کا تذکرہ کیا تو ایک طوفان کھڑا کیا جارہا ہے ۔ انہیں فرقہ پرست قرار دیا جارہا ہے اور متعصب ذہن کے لوگ انہیں قوم دشمن قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی سرحدات کی حفاظت کرنے والوں کا تذکرہ کرنا اور ان کے کارناموں کو بیان کرنا فرقہ پرستی ہے ؟ ۔ در اصل یہ دوہرے معیارات ہیں ۔ یہ در اصل مسلمانوں کے کارناموں کو پس پشت ڈالنے کی ایک سازش کا حصہ ہے ۔ آج سارے ملک میں یہ روش ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے دوہرے معیارات اختیار کئے جاتے ہیں۔ تحفظات کے نام پر مسلمانوں سے امتیاز برتا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات نہیں دئے جاسکتے ۔ اس عذر کے ساتھ مسلمانوں کو تحفظات سے محروم کیا جاتا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں صرف اور صرف غیر مسلموں کو تحفظات دئے گئے اور مسلمانوں کو محض ان کے مذہب کی بنیاد پر تحفظات سے محروم کیا گیا ہے ۔ اب مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی ملک کیلئے دی گئی قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھی متعصب اور فرقہ پرست طاقتوں کیلئے ناقابل قبول ہوتا جارہا ہے اور وہ اس کو روکنے کیلئے کبھی عدالت تو کبھی الیکشن کمیشن سے رجوع ہو رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور اس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے ۔ ہندوستان کی فوج ایک گلدستہ ہے جس میں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے فوجی ہیں جو اپنے مذہب کواپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے ملک کی سرحدات کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانیاں پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ یہ ہندوستانی فوج کی ایک ایسی انفرادی خصوصیت ہے جو شائد ہی کہیں اور دیکھنے میں آئے لیکن ایک سکیولر ملک ہوتے ہوئے جس طرح سے زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوںکو نیچا دکھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اس پر ایسی تنقیدیں نہیں ہو رہی ہیں جس طرح کی تنقیدیں اعظم خان پر ہو رہی ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواہشمند شخص کہتا ہے کہ وہ پہلے ہندو ہے پھر ہندوستانی ہے تو اس پر تنقیدیں نہیں ہوتیں بلکہ اس پر مبارکباد دی جاتی ہے ۔ یہ ہمارے سماج کا اور تعصب اور تنگ نظری سے کام کرنے والوں کا دوہرا معیار ہے اور اس طرح کے دوہرے معیارات سماج میں تفریق پیدا کرتے ہیں اور ان کا خاتمہ کرنا سماج کو بچانے کیلئے ضروری ہے ۔