حیدرآباد ۔ 11 جون (سیاست نیوز) دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں اسکولوں کی کشادگی کے ساتھ ہی اولیائے طلبہ میں سخت برہمی کا آغاز ہوچکا ہے۔ دونوں شہروں کے اسکولوں کی جانب سے من مانی فیس میں اضافے کے خلاف اولیائے طلبہ عدالت سے رجوع ہونے سے متعلق غور کررہے ہیں۔ اسکولوں میں فیس کے تعین کیلئے حکومت کی جانب سے واضح احکامات نہ ہونے کے سبب پیدا شدہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکول انتظامیہ فیس میں من مانی اضافہ کررہے ہیں لیکن انہیں روکنے کیلئے کوئی مشنری سرگرم نہیں ہے۔ جاریہ سال 50 فیصد سے زائد فیس میں اضافہ سے پریشان اولیائے طلبہ کی جانب سے حکومت کو متعدد نمائندگیاں روانہ کئے جانے کے باوجود حکومت نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں جس کے سبب شہر میں موجود اسکول انتظامیہ کی من مانی کا سلسلہ جاری ہے۔ سال 2010ء میں حکومت نے مرکزی حکومت کی سفارشات و ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جی او ایم ایس 42 جاری کرتے ہوئے فیس کا تعین کیا تھا اور سہولتوں کی بنیاد پر فیس مقرر کرنے کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اسکولوں میں موجود انفراسٹرکچر کی بنیاد پر انہیں فیس کے تعین کا اختیار دیا گیا تھا لیکن حکومت نے جی او ایم ایس 42 کے تحت اسکول فیس کی حد کا تعین کرتے ہوئے پرائمری اسکول جو شہری علاقوں میں چلائے جارہے ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ 9 ہزار روپئے سالانہ اور ماہانہ 750 روپئے وصول کرنے کی اجازت فراہم کی تھی۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں چلائے جانے والے اسکولوں میں 7800 روپئے سالانہ اور 650 روپئے ماہانہ فیس وصول کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی تھی۔ اپر پرائمری اسکول جو شہری علاقوں میں چلائے جارہے ہیں، انہیں 9 ہزار روپئے سالانہ اور 750 روپئے ماہانہ فیس وصول کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں چلائے جانے والے اپر پرائمری اسکول کیلئے 7800 روپئے سالانہ اور 650 روپئے ماہانہ فیس وصول کرنے کی اجازت فراہم کی گئی ہے۔ ہائی اسکول میں 12 ہزار روپئے تک سالانہ فیس شہری علاقوں میں چلائے جانے والے اسکولس وصول کرسکتے ہیں اور ماہانہ انہیں ہزار روپئے وصول کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ دیہی علاقوں میں چلائے جانے والے ہائی اسکول 10,800 روپئے کے اعتبار سے ماہانہ 900 روپئے فیس وصول کرنے کے مجاز ہیں لیکن ان احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ ہزارہا روپئے وصول کررہے ہیں جنہیں روکنے کیلئے کمشنریٹ کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں جبکہ آئے دن اولیائے طلبہ کی شکایات بذریعہ ذرائع ابلاغ و نمائندگیوں کے تمام محکموں تک پہنچ رہی ہیں۔