دونوں ریاستوں میں اعلیٰ عہدیداروں کی تعیناتی میں حکومتوں کو دشواریاں

سکریٹریز کا بھی باقاعدہ عدم اعلان، مسلم عہدیداروں کی شدت سے کمی محسوس
حیدرآباد۔/22جون، ( سیاست نیوز) مسلم اقلیت کے اعلیٰ عہدیداروں کی کمی کے باعث متحدہ آندھرا پردیش میں اقلیتی اداروں پر تقررات کیلئے حکومت کو عہدیداروں کی تلاش میں کافی دوڑ دھوپ کا سامنا تھا۔ اب جبکہ ریاست تقسیم ہوچکی ہے، دونوں ریاستوں میں اقلیتی اداروں پر تقررات کیلئے عہدیداروں کی کمی حکومتوں کیلئے تقررات کے سلسلہ میں اہم رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ متحدہ ریاست میں سکریٹری اقلیتی بہبود اور کمشنر اقلیتی بہبود کے عہدوں پر تقررات کئے گئے تھے جبکہ دیگر اداروں میں ایک عہدیدار کو ایک سے زائد اداروں کی ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ اب جبکہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش ریاستیں قائم ہوچکی ہیں پرنسپل سکریٹری سے لیکر مختلف اداروں کے سربراہوں کے تقرر کے سلسلہ میں متعلقہ حکومتوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ مرکزی حکومت نے آئی اے ایس، آئی پی ایس اور دیگر سنٹرل سرویسس سے وابستہ عہدیداروں کی تقسیم کا عمل مکمل نہیں کیا ہے جس کے باعث ایک حکومت عارضی انتظامات کے طور پر محکمہ جات کی کارکردگی کو یقینی بنارہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں باقاعدہ طور پر سکریٹریز کا تقرر نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل کی اقلیتی اُمور کی ذمہ داری سے دستبرداری کے بعد وہ از خود آندھرا پردیش اُمور کے انچارج بن چکے ہیں۔ جبکہ تلنگانہ میں اقلیتی اُمور کی ذمہ داری سماجی بھلائی کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر ٹی رادھا کے سپرد کی گئی۔ آندھرا پردیش حکومت نے تاحال سکریٹری اقلیتی بہبود کے عہدہ پر باقاعدہ کسی عہدیدار کا تقرر نہیں کیا ہے۔ ان حالات میں مسلم عہدیداروں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ جہاں تک اقلیتی اداروں کا تعلق ہے اردو اکیڈیمی، حج کمیٹی، اقلیتی فینانس کارپوریشن اور سنٹر فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آف میناریٹیز کیلئے صرف ایک ہی عہدیدار موجود ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور جو سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کے عہدہ پر فائز کئے گئے تھے انہیں بتدریج دیگر تین اداروں کی ذمہ داری دے دی گئی۔ وہ منیجنگ ڈائرکٹر اقلیتی فینانس کارپوریشن، اسپیشل آفیسر حج کمیٹی اور ڈائرکٹر سی ای ڈی ایم کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ ایک عہدیدار کے تحت چار اداروں کی موجودگی کے باوجود اداروں کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ انچارج پرنسپل سکریٹری ٹی رادھا نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ پروفیسر ایس اے شکور چاروں اداروں کی بہتر طور پر نگرانی کے ذریعہ تمام اسکیمات پر عمل آوری کو یقینی بنارہے ہیں، حکومت انہیں زائد ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے تیار نہیں۔ حکومت کیلئے دشواری یہ ہے کہ ان عہدوں کیلئے حکومت میں کوئی موزوں عہدیدار نہیں جو اپنے کیڈر کی بنیاد پر ان عہدوں پر فائز ہوسکے۔ اب جبکہ آندھرا پردیش ریاست میں بھی یہ تمام ادارے قائم کئے جائیں گے لہذا وہاں ان عہدوں پر تقررات کیلئے عہدیداروں کی کمی اہم مسئلہ رہے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آندھرا پردیش حکومت سکریٹری کے علاوہ کمشنر اقلیتی بہبود، اسپیشل آفیسر وقف بورڈ، چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ اور دیگر اداروں پر تقررات کیلئے مسلم عہدیداروں کو کہاں سے فراہم کرے گی۔ اعلیٰ عہدوں پر مسلم عہدیداروں کی کمی کی اہم وجہ مسلم طلبہ کی مسابقتی امتحانات سے دوری ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے آئی اے ایس، آئی پی ایس اور دیگر مسابقتی امتحانات کے سلسلہ میں کوچنگ فراہم کی جارہی ہے لیکن کوچنگ کے حصول کیلئے اقلیتی طلبہ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ عام طور پر طلبہ میڈیکل، انجینئرنگ کورسیس کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ریاست میں4فیصد تحفظات کی فراہمی کے پس منظر میں اقلیتی طلبہ اگر سیول سرویسس اور اے پی پبلک سرویس کمیشن کے مختلف گروپس کے امتحانات پر توجہ دیں تو سرکاری نظم و نسق میں مسلم نمائندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔