متعلقہ اداروں سے تبادلہ خیال کا اعلان ، عالمی معاشی فورم کے اجلاس سے ترک صدر اردگان کا خطاب
استنبول۔ 29 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ترکی بین الاقوامی اتحاد سے جو دولت اسلامیہ کے جہادیوں کے خلاف جنگ کررہا ہے، الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ صدر ترکی رجب طیب اردگان نے آج یہ بات کہی، جبکہ انقرہ میں آئندہ ہفتہ ترکی کی اس مہم میں فوجی شمولیت کی تیاریاں جاری ہیں۔ ترکی کئی ماہ سے مغربی ممالک کے رویے پر مایوس تھا اور دولت اسلامیہ کے خلاف محتاط موقف اختیار کئے ہوئے تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم رجب طیب اردگان کے گزشتہ ہفتہ بحیثیت صدر امریکہ کے دورہ کے بعد ترکی کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ عالمی معاشی فورم کے اجلاس سے جو استنبول میں منعقد کیا گیا، کلیدی خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ اداروں سے جاریہ ہفتہ تبادلہ خیال کریں گے۔ ہمیں اس کی یقیناً ضرورت ہے، کیونکہ ہم اس معاملے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ دولت اسلامیہ کے عسکریت پسند اب شام میں پیش قدمی کررہے ہیں اور ترکی سے صرف چند کیلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ سرحد پار سے پریشان حال ہزاروں افراد فرار ہوکر ترکی پہنچ رہے ہیں۔ ترکی تاحال ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ پناہ گزین افراد کو پناہ فراہم کرچکا ہے جو عین العرب قصبہ اور اس کے اطراف و اکناف دولت اسلامیہ کی یلغار کی وجہ سے فرار ہوکر ترکی پہنچے ہیں۔ اُردگان نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے ملک میں بحفاظت رہ سکیں۔ صدر ترکی نے ارادہ کیا کہ ایک بفر زون اور عدم پرواز خطہ شام کے اندر قائم کیا جانا چاہئے تاکہ ترکی کی سرحدوں کو محفوظ رکھا جاسکا اور پناہ گزین بھی بحفاظت رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف فضائی حملے نہیں ہوتے بلکہ زمینی حملوں کا خوف ہوتا ہے۔ وزیراعظم ترکی احمت دعوت اوگلو نے کہا کہ حکومت اپنی قراردادیں روانہ کرتے ہوئے درخواست کرے گی کہ عراق اور شام میں کل سے فوجی کارروائی کا ترکی کو اختیار دیا جائے۔ یہ ایک زبردست دخل اندازی ہوگی جس کا مقصد صرف مقامی عوام کی حفاظت اور دیکھ بھال ہوگا۔ ترکی کے اعلیٰ سطحی جنرل نکدیت اوزیل اس سلسلے میں منگل کے دن ترکی کابینہ سے خطاب کریں گے۔بعدازاں پارلیمنٹ مباحث منعقد کرے گی۔ اس کی منظوری کے بعد ہی فوجی کارروائی کی راہ ہموار ہوگی۔ حالانکہ اس میں ترکی کس حد تک ملوث رہے گا ، ابھی واضح نہیں ہوسکتا۔ اردگان نے طویل عرصہ تک صدر شام بشارالاسد کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔