دولت اسلامیہ اور عرب اتحاد

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو
محبت کی زباں بن جا اخوت کا بیاں ہوجا
دولت اسلامیہ اور عرب اتحاد
شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف فوجی کارروائی میں اب عرب ممالک کے شامل ہونے سے ساری دنیا میں یہ پیام پہونچا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کسی بھی مسلم ملک یا عرب حکمراں کا تعلق نہیں ہے ۔ صدر امریکہ براک اوباما کو تقریباً دو ہفتوں قبل ہی یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں کے خلاف فوجی کارروائی کو وسعت دیں۔ دولت اسلامیہ نے اب تک ہزاروں افراد کو ہلاک کیاہے جن میں امریکہ کے دو صحافی اور برطانیہ کا ایک ورکر بھی شامل ہے۔ شام میں دولت اسلامیہ کیخلاف کارروائی کو روس نے یکطرفہ حملے قرار دیا اس کے خیال میں دولت اسلامیہ کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال سے یہ خطہ عدم استحکام سے دوچار ہوجائے گا۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی اہم نگرانی کے تحت تمام عالمی برادری کو باہمی تعاون کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے لیکن امریکہ نے چند عرب ملکوں کو حلیف بناکر مخصوص ٹھکانوں پر بمباری شروع کی ہے تو اس سے جانی نقصانات کے علاوہ علاقہ کو عدم استحکام کی جانب ڈھکیل دینا ہے ۔ امریکہ کے ساتھ عرب ملکوں کا شامل ہوجانا غور طلب ہے ۔ امریکہ نے جب اپنی طاقت کااستعمال کرتے ہوئے کئی عرب یا مسلم ملکوں کو کمزور کردیا ہے تو اسے انہی ملکوں میں سے ایک طاقت کے ابھرنے سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ توجہ چاہتے ہیں ۔ عرب ملکوں کو مغربی دنیا کی ایسی کسی چال کا حصہ نہیں بننا چاہئے جو عالم اسلام کو مزید کمزور بنانے کا موجب ہوسکتا ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ کسی بھی معاشرہ میں انتہاپسندی یا دہشت گردی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاتا لیکن دولت اسلامیہ نے جس تیزی سے اپنی طاقت کو بڑھاکر خون ریزکاروائیاں شروع کی ہیں وہ مشکوک ہیں۔ امریکہ پر 11 ستمبر کے حملے کے بعد دہشت گردی اور فوجی کارروائیوں کا رُخ ہی بدل گیا ہے ۔ اب تک امریکہ پر کوئی دوسرا حملہ نہیں ہوا نہ ہی دہشت گرد سرگرمیوں سے کسی مغربی ملک کو نقصان پہونچا ہے تو پھر مسلم ملکوں میں دہشت گردی برپا کرنے والی طاقتوں کو اچانک اتنی طاقت کہاں سے حاصل ہوئی اور انھیں خطرناک ہتھیار کس نے فراہم کئے ۔ اس سوال کا جواب تلاش کئے بغیر مغرب کی ہاں میں ہاں ملائی جائے تو عرب ملکوں کو آنے والے برسوں میں مختلف چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دہشت گردی کا خاتمہ بہرصورت ناگزیر ہے مگر اس کے خلاف کارروائی کاطریقہ اور اصول بنانے والوں کے سازشوں سے بے خبر ہونے کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ۔ دولت اسلامیہ نے ایک طرف امریکہ کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں اور دوسری طرف مسلم ملکوں میں اپنے ہی عوام کے درمیان دہشت گردی پھیلاکر انسانوں کا غیرضروری خون بہانے کی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے ۔ مغرب کے چند ایک افراد کے سوا دولت اسلامیہ کی خون ریز کارروائیوں میں کسی مغربی ملک کو بھاری نقصان نہیں ہوا ۔ آخر یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے کی حرکتوں کے ذریعہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یا کیا پیام دینا چاہتے ہیں اس پر غور کرنے کی عرب ملکوں نے کوشش نہیں کی ہے ۔ امریکہ میں کئی امریکیوں نے صدر اوباما کو شام کے باغیوں کی مدد کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی ۔ کیوں کہ جب کبھی امریکہ نے شام یا عراق میں خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کی ہے تو نقصانات بھی زیادہ ہوئے ہیں۔ امریکی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی شام اور عراق میں اس کی فوجی کارروائیوں کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ، صرف مشرق وسطیٰ کا امن درہم برہم ہوچکا ہے ۔ دولت اسلامیہ کو شام کے کئی مقامات پر مضبوطی حاصل ہے ۔ جب 9/11 کے بعد سے امریکہ اور اس کی حلیف طاقتیںدولت اسلامیہ جیسی طاقتوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہی ہیں تو امریکہ اب عرب ممالک کو اپنا حلیف بناکر فوجی کارروائی کررہا ہے تو اس کے منفی اثرات سے ہونے والے نقصانات کا عرب ملکوں کو سامنا کرنا پڑے گا ۔ امریکہ اور اس کے عرب حلیفوں نے اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر شام پر حملے کئے ہیں تو اس کارروائی کے خلاف دیگر ممالک سے مخالفانہ آواز اُٹھنا فطری امر ہے۔ روس کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی یکطرفہ حملوں کی مخالفت کی ہے ۔ حالیہ دنوں میں صدر ارمریکہ اوباما نے سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری اور ڈیفنس قائدین کو لے کر شام پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کی لیکن انھیں 1991 ء کی خلیجی جنگ کی طرح اتحادی ملکوں کی بڑی تعداد کی تائید حاصل نہیں ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دنیا کے ماباقی ملکوں نے ہوش کے ناخن لیئے ہیں اس لئے عرب ملکوں کو کسی ملک پر حملوں کیلئے امریکہ کے غیرقانونی اقدامات کا حصہ نہیں بننا چاہئے تھا لیکن دولت اسلامیہ کے خلاف اوباما نظم و نسق کی مہم کی کامیابی کیلئے علاقائی تعاون و اتحاد کو اہم سمجھا گیا اس سے شام میں امریکہ کی حکمت عملی کیلئے کئی شکوک و شبہات بھی پیدا ہوں گے کیوں کہ دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی سے صرف ناحق انسانی جانوں اور شہری املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔