پریاگ راج5نومبر(سیاست ڈاٹ کام ) دیوالی کے موقع پر لوگوں کے گھروں علم کا چراغ اورخوشحالی کے دئیے روشن کرنے والے کمہاروں کی پریشانی یہ ہے کہ ان کے گھر اب بھی ناخواندگی نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔دیوالی کے موقع پر گھر گھر میں دئے جگمانے کے لئے مٹی کا دیا بنانے والے کمہاروں کے روزگار کو مہنگائی کی مار اور حکومت کی بے رخی ختم کرتی جا رہی ہے ۔ مارکیٹ میں جدید آلات نے آج کمہار کے چاک کی رفتار کو بریک لگا دیا ہے ۔ بھلے ہی مہنگائی کی مار صارفین پر اتنی نہیں پڑی ہو، لیکن مشینوں کی ایجادات نے ان کی روزی روٹی چھین لی ہے ۔ کمہاروں کا یہ روایتی کاروبار اب زوال کی جانب مائل ہے ۔کچھ بزرگ کمہار ہی بچے ہیں جن کی کانپتی انگلیاں آج بھی روایتی کاروبار کے پہیہ کوڈھکیل رہی ہیں۔کمہاروں کا کہنا ہے کہ دئیے اور مٹی کے دیگر برتنوں کی وافر مقدار میں فروخت نہ ہونے کہ وجہ سے وہ معاشی تنگ دستی کا سامنا کر رہے ہیں اور بذات خود اپنے گھروں کو روشن کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے کمہاروں کی زندگی میں روز بروز اندھیرا گھرتا جا رہا ہے ۔ وہ اپنی اس روایتی کاروبار سے اب الجھن کا شکار ہیں۔ شہر کے کوہلانا باغ کوہرانا، بستی، بہرانا، بلواگھاٹ، رسول آباد، تیلیر گنج، سلوم سرائے ، پیپل گاؤں اور راج روپر وغیرہ علاقوں میں کچھ سالوں پہلے تقریبا 500 کنبے اس کاروبار سے جڑے ہوئے تھے جو اب کم ہوکر تقریبا 150 اور 200 ہی رہ گئے ہیں۔