دور حاضر میں سنت نبویؐ کا احیاء وقت کی اہم ضرورت

ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے مستقبل پر خدشات ، علماء کرام متفکر
حیدرآباد۔31اکٹوبر(سیاست نیوز) محراب و منبرکے ذریعہ مسلمانوں کی رہنمائی و رہبری کی جانی چاہئے کیونکہ اللہ کے رسولﷺ کے زمانہ سے ہی مساجد مسلمانوں کا مرکز ہوا کرتے تھے اور مساجد میں ہی مسلمانوں کے تمام فیصلہ اور ان کی رہنمائی ہوا کرتی تھی ۔دور حاضر میں اس سنت نبوی ﷺ کا احیاء عمل میں لانے کی ضرورت ہے اور مساجد کو مسلمانوں کے تمام امور کا مرکز بنانے کی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے ۔ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں جو خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے وہ علماء اکرم جو سیاسی فکر کے حامل ہیں انہیں قوم کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی اور قوم کو خوف کے عالم سے باہر لاتے ہوئے تحفظ شریعت کا بیڑا اٹھانا پڑے گا کیونکہ سیاسی قائدین مسلمانوں کے مسائل کو سیاسی طور پر اٹھانے اورایوانوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کی علماء برادری میں شدت سے اس بات کا احساس پیدا ہوچکا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اب کسی تنظیم یا سیاسی قائد کی ایماء پر مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ملک کو فرقہ پرستوں کے چنگل سے بچانے کیلئے ان فرقہ پرستوں کو حوصلہ فراہم کرنے والی قوتوں کو شکست سے دوچار کرنے کے متعلق غور کرنے لگے ہیں۔ جمیعۃ اہلحدیث کے علاوہ جمیعۃعلماء ہند اور مشائخین کی تنظیموں کی جانب سے بھی یہ کہا جا رہاہے کہ وہ اپنے طور پر فیصلہ کریں گے اور منبر و محراب سے ہی عامۃالمسلمین کی رہبری و رہنمائی کو ممکن بنایا جائے گا کیونکہ اب تک مسلمانوں کی متحدہ تنظیم کے نام پر سیاسی مفادات حاصل کرنے والوں نے کئی امور میں مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔حکومت کی تائید کرتے ہوئے حکومت تلنگانہ کو اقتدار پر پہنچانے سے قبل فورم کی جانب سے متعدد مرتبہ یہ کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے معاملہ میں کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی لیکن فورم میں شامل تنظیموں کے ذمہ داروں کو سیاسی نامزد عہدوں کے حصول کے بعد سے فورم نے کئی مسائل پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور ان مسائل کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ کشن باغ میں پولیس فائرنگ میں مسلم نوجوانوں کی ہلاکت‘ آلیر انکاؤنٹر میں مسلم نوجوانوں کی ہلاکت‘اوقافی جائیدادوں کی تباہی ‘ 12فیصد تحفظات کی فراہمی کے وعدہ سے انحراف‘ مکہ مسجد دھماکہ کے ملزمین کی برأت کے خلاف حکومت کی جانب سے اپیل نہ کئے جانے کے علاوہ کئی ایسے مسائل ہیں جن پر یونائیٹڈ مسلم فورم خاموش تماشائی رہا ۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست تلنگانہ کے اضلاع کے مسلمانوں کو بھی اب اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ فورم میں شامل اہم تنظیموں کے اعلی عہدیدارو ںنے سرکاری عہدے حاصل کرنے کے بعد ملی مسائل پر خاموشی اختیار کرلی ہے اور وہ کس کے دباؤ کے تحت خاموش ہیں اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا رہاہے۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے بڑھتی قربت اور طلاق ثلاثہ مسئلہ پر حکومت کی خلاف ووٹ کا استعمال نہ کئے جانے پر بھی سیاسی فکر کے حامل علماء فورم کی رائے سے مختلف غور کرنے لگے ہیں اور یہ کہا جا رہاہے کہ اگر فورم کی جانب سے سابق کی طرح چالاکی کے ساتھ امیدواروں کی بنیاد پر تائید کرتے ہوئے لمحۂ آخر میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کی بالواسطہ تائید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اضلاع میں فورم کے فیصلہ کے خلاف محاذ کھول دیا جائے گا۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یونائیٹڈ مسلم فورم سے امیر امارت ملت اسلامیہ مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ ثانی کی علحدگی فورم کے سرکردہ ذمہ داروں اور فورم کے سرپرست سیاسی قائدین کے لئے نوشتۂ دیوار ہے اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے مقامی طور پر بااثر سیاسی فکر کے حامل علماء اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہوئے محراب و منبر کے ذریعہ ہی ملک میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے کے متعلق غور کرنے لگے ہیں ۔