حیدرآباد 4 اگسٹ (محمد ریاض احمد) ملک کے تاریخی ہسپتالوں میں سرفہرست عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرائے جانے سے متعلق چیف منسٹر کے سی آر کے منصوبوں پر شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی بزرگ و نمائندہ شخصیتوں میں کافی برہمی پائی جاتی ہے۔ حیدرآبادی تہذیب کی ان نمائندہ شخصیتوں میں ڈاکٹرس، اساتذہ، ادیب و دانشور غرض زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں، فی الوقت نہ صرف حیدرآباد اور ہندوستان بلکہ ان ممالک میں جہاں حیدرآبادی مقیم ہیں، یہ سوال گشت کررہا ہے کہ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی جانب سے تعمیر کردہ اس تاریخی دواخانہ کو جو اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، منہدم کیا جانا چاہئے یا نہیں؟ چنانچہ ہم نے یہی سوال حیدرآبادی تہذیب کی باوقار شخصیت نواب شاہ عالم خاں سے کیا جس کے جواب میں اُنھوں نے پرزور انداز میں کہاکہ ’’قطعاً نہیں‘‘ ہندوستان کی خوبصورت عمارتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہ دراصل عوام کو نواب میر محبوب علی خاں اور آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کا ایک یادگار تحفہ ہے۔ دواخانہ عثمانیہ اور ہائی کورٹ کی شاندار عمارتیں فن تعمیر کی شاہکار اور ہماری تہذیب کی پہچان ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے منصوبے کے بارے میں جان کر نہ صرف انھیں بلکہ حیدرآباد کی دیگر وضع دار شخصیتوں کو رنج ہوا ہے۔ ہمارے شہر میں اراضیات یا جگہ کی کمی نہیں وہاں چیف منسٹر اپنے منصوبے کے مطابق عمارات تعمیر کراسکتے ہیں۔ رودِ موسیٰ کے کنارے نیا دواخانہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ نواب شاہ عالم خاں کے مطابق عثمانیہ دواخانہ میں انگریز نرسیس خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔ ماضی میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں ڈاکٹر ہنٹ، ڈاکٹر بہادر خاں، ڈاکٹر بنکٹ چندر، ڈاکٹر شاہ نواز جیسے ڈاکٹروں نے خدمات انجام دیں۔ نواب شاہ عالم خاں کے مطابق ایسی عمارت اب دوبارہ تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ جب یہی سوال ہم نے حیدرآبادی تہذیب کی ایک اور نمائندہ شخصیت اور اردو زبان کی سپاہی محترمہ لکشمی دیوی راج سے پوچھا تب اُنھوں نے حکومت کے منصوبوں پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمیں وراثت کیا ہے معلوم ہی نہیں، ہر کام واستو کے لحاظ سے کیا جارہا ہے، ہر چیز توڑی جارہی ہے، قدیم و تاریخی عمارتوں کا نام و نشان مٹایا جارہا ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آدھا شہر تو غائب ہوچکا ہے۔ شہر کنکریٹ کے قبرستان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ہم امریکہ کی تقلید کرنے لگے ہیں۔ پہلے زمانے میں موسم کے لحاظ سے عمارات تعمیر کی جاتی تھیں۔ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل بھی موسم کے لحاظ سے تعمیر کرایا گیا تھا اور دنیا بھر میں ایسا اسپتال نہیں ہے۔ شہر میں 400 سال سے زائد قدیم عمارتیں ہیں۔ عثمانیہ جنرل اسپتال کی عمر تو 90 یا 91 سال ہے۔ ایسے میں اسے منہدم کرنے کا منصوبہ ٹھیک نہیں ہے۔ محترمہ لکشمی دیوی راج کے مطابق عوام کو ڈبہ نما عمارتوں کی نہیں بلکہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل جیسے کشادہ ہوادار عمارتوں کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب محترمہ فاطمہ عالم علی خاں نے بھی عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کے حکومتی منصوبوں پر تشویش ظاہر کی اور کہاکہ ایک تاریخی ورثہ اور یادگار عمارت کو منہدم کرنے کے بجائے اس کی تزئین نو کرائی جائے تو بہتر رہے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں گنبدان قطب شاہی کی مرمت و تزئین نو کی مثال پیش کی۔ ان کے خیال میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل حیدرآباد کی پہچان ہے۔ اس پہچان کو منہدم کرنے کا مطلب حیدرآبادی تہذیب کے خاتمہ کی کوشش ہے۔ محترمہ فاطمہ عالم علی خاں کے خیال میں آج عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کا سوچا جارہا ہے کل شہر اور اس کے اطراف و اکناف کی تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے کی بات کی جائے گی۔ اسی دوران شہر کے ممتاز ڈاکٹر ، ڈاکٹر راج پرساد نے کہاکہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کا سوچنا بھی گناہ ہے۔ انھوں نے واضح طور پر کہاکہ اس تاریخی اسپتال کی عمارت کو ہرگز ہرگز ہرگز منہدم نہیں کیا جانا چاہئے۔ ممتاز عثمانین میں شامل ڈاکٹر پرساد کے خیال میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور عثمانیہ میڈیکل کالج جیسے ادارے ساری دنیا میں نہیں۔ اس دواخانہ اور کالج سے ڈاکٹر بہادر خاں جیسے نامور ڈاکٹر بھی وابستہ رہے جن کا نام برطانیہ کے طبی کورسیس کی کتابوں میں شامل ہے۔ یہی وہی اسپتال ہے جہاں نہ صرف تلنگانہ بلکہ آندھراپردیش، ٹاملناڈو، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے بھی مریض آتے ہیں۔ ایسے اسپتال کو منہدم کرنے کا منصوبہ کی وہ شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ انھوں نے یہاں تک کہاکہ اگر اس منصوبہ پر عمل کی کوشش کی جائے گی تو وہ خود اپنے دیگر ڈاکٹر ساتھیوں کے ساتھ اس کی مزاحمت کریں گے۔