دل کے آئینے میں پنہاں یار کی تصویر ہے

پروفیسرسید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی

ذکر پر مداومت ہونی چاہئے، یعنی مستقل کرتے رہنا چاہئے۔ کبھی کیا اور کبھی چھوڑ دیا سے بات نہیں بنے گی۔ مسلسل عمل اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔ کسی پتھر پر اگر پانی قطرہ قطرہ مسلسل گرتا رہے تو ایک وقت آئے گا کہ پتھر میں سوراخ ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ذکر تھوڑا ہو تو اللہ کا نام یونہی رائیگاں جائے گا اور کوئی اثر نہ ہوگا۔ زبان سے صرف ایک مرتبہ اللہ کہو تواس کا بھی اثر ہوتا ہے، مگر قلت کی وجہ سے اثر دکھائی نہیں دیتا۔ مثلاً آپ پانی پیتے ہیں، ایک دو گلاس پینے کے بعد محسوس ہوا کہ آپ کی پیاس بجھ گئی اور آپ سیراب ہو گئے۔ کیا آپ کی پیاس کو صرف آخری گھونٹ نے بجھایا؟ پہلے گھونٹ نے کوئی اثر نہیں کیا؟۔ کیا پیاس بجھانے میں پہلے گھونٹ کا کوئی حصہ نہیں ہے؟۔ یاد رکھئے! پیاس بجھانے میں جتنا کام آخری گھونٹ نے کیا، اتنا ہی کام پہلے گھونٹ نے بھی کیا، لیکن سیرابی کا احساس آپ کو آخری گھونٹ پر ہوا، بلکہ پانی کے ایک ایک قطرے نے پیاس بجھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اللہ اللہ جو کہتے ہو یہ قطرہ قطرہ ہے، آپ کے حلق کو تر کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ آپ کی پیاس بجھ جاتی ہے۔ ایک بار بھی آپ اسم ذات (اللہ) زبان پر لائیں گے تو یقین کریں وہ بھی بے اثر نہیں ہوگا۔
ذکر کرتے وقت آنکھیں بند رکھیں، کیونکہ آنکھ بند کرکے ذکر کرنے میں صفائی قلب جلد حاصل ہوتی ہے۔ اللہ اللہ، اسم ذات کا ذکر اگرچہ سرسری یعنی آہستہ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن جہری زیادہ مفید ہے، کیونکہ ذکر جہری ذوق و شوق کو جلد بڑھا دیتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ ذکر سری جو اثر چھ مہینے میں دکھائے گا، ذکر جہری ایک مہینہ میں دکھا دے گا۔ حق جل شانہ کو اپنے اسم ذات کا ذکر ’’اللہ اللہ‘‘ بہت پسند ہے، اسی لئے تو فرمایا: ’’ولذکر اللّٰہ اکبر‘‘ (سورہ عنکبوت۔۴۵) اور یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔

سالکان راہ طریقت کے تین زمرے ہیں۔ زمرۂ اولی مبتدیوں کا، زمرۂ ثانیہ متوسطوں کا اور زمرۂ ثالثہ منتہیوں کا۔ مبتدیوں کا کام ذکر ہے، متوسطوں کا کام تلاوت ہے اور منتہیوں کا کام نوافل۔ سورہ مزمل میں ارشاد ربانی ہے: ’’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘۔ یہ آیت پورے سلوک کا خلاصہ ہے۔ اس میں دو باتوں کا حکم دیا گیا ہے، ایک ذکر اسم ذات اور دوسرے ترک غیر، جو تجرید ظاہری ہے، ذکر سے ابتدا ہوتی ہے اور تبتل پر انتہا۔ جب توفیق ترک غیر نصیب ہوتی ہے تو ساری برائیاں مٹ جاتی ہیں اور باطن آئینہ سے بھی زیادہ صاف اور شفاف ہوجاتا ہے۔ اس آئینہ میں اب ذکر کا نور آتا ہے تو قلب مذکور کی ’’تجلی گاہ‘‘ بن جاتا ہے۔ بقول شاعر:

دل کے آئینے میں پنہاں یار کی تصویر ہے
سر جھکاکر دیکھتے ہیں جلوہ جاناناں ہم
یہ وہ منزل ہے، جہاں پہنچنے کی بڑے صاحبان تصرف آرزو کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس منزل پر پہنچنا نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔ خلاصہ یہ کہ ذکر، قصر محبت کا باب الداخلہ ہے، اس کو فراموش کرکے محبت الہی تک رسائی ممکن نہیں۔
ذکر کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً (۱) زبان سے اللہ کہنا (۲) دل ہی دل میں اللہ اللہ کہنا (۳) ہر وقت اللہ تعالی کی طرف دھیان لگائے رکھنا (۴) اللہ تعالی سے ربط و تعلق پیدا کرلینا (۵) اللہ تعالی کی عبادت کرنا (۶) اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرنا (۷) اللہ تعالی کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کردینا۔ یہ تمام صورتیں اللہ تعالی کے ذکر ہی کی ہیں، لیکن صوفیہ کرام جس ذکر کی بات کرتے ہیں، اس سے بالعموم ذکر اسم ذات مراد ہوتا ہے، جو زبان و دل اور خیال سے ہوتا ہے۔
ذکر میں تسلسل اور انعطاف توجہ کے لئے صوفیہ کرام نے ہاتھ میں تسبیح رکھنے کی سفارش کی ہے۔ مشاغل اور مصروفیات میں توجہ کا ہٹ جانا ایک فطری امر ہے، اس توجہ کو ذکر پر منعطف کرنے اور ذکر کو جاری و ساری رکھنے میں تسبیح بڑا کردار ادا کرتی ہے اور یہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ ذکر کرتے رہو، اسی لئے صوفیہ کرام اس کو ’’مذکرہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی یاد دلانے والی۔
بعض لوگ تسبیح کو بدعت قرار دیتے ہیں، جو قطعاً جاہلانہ بات ہے۔ عہد رسالت میں اس کے جواز کے ہمیں دو ثبوت ملتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو سونے سے پہلے ایک وظیفہ دو ہزار مرتبہ پڑھنے کے لئے بتایا۔ ظاہر ہے کہ یہ تعداد انگلیوں پر نہیں گنی جاسکتی، اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ڈوری لے کر اس میں دو ہزار گرہیں ڈال لیں، یوں وہ تعداد کا شمار کرلیتے تھے۔ یہ گویا تسبیح تھی، خواہ اس میں گرہیں ہوں یا منکے یا کچھ اور، اسے تسبیح ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاتون کے پاس سے گزرے، جس نے اپنے سامنے کنکریوں کا ایک ڈھیر رکھ لیا تھا اور وہ درود شریف پڑھا کرتی تھیں۔ ایک کنکری اٹھاتیں اور درود شریف پڑھ کر بازو ڈال دیتیں، اس کے بعد دوسری کنکری اٹھاتیں۔ یہ وہی طریقہ تھا، جیسے آج کل ہم بیجوں پر ختم وغیرہ پڑھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کے اس عمل کو دیکھا اور منع نہیں فرمایا۔ اگر اس عمل میں کوئی شرعی کراہت ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور منع فرماتے۔ آپﷺ کا سکوت ہمارے لئے سند جواز ہے۔ یہ ایک صحابی اور صحابیہ کا مستقل عمل تھا، پھر بدعت کیسے ہوگیا؟۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بڑھ کر مزاج دان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مزاج دان اسلام اور کون ہوسکتا ہے؟۔
ہاتھ میں تسبیج رکھنا ایک تدبیری عمل ہے، جو عہد رسالت میں بھی تھا۔ اگرچہ عام نہیں تھا، مگر سلف صالحین نے اس کو سنت نہیں بلکہ مستحسن سمجھ کر اپنایا۔ لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، مگر آپ اپنا کام کئے جائیں۔ تسبیح اگرچہ ابتدائے سلوک میں ایک معاون چیز ہے، لیکن سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تکمیل سلوک کے بعد بھی کبھی ہاتھ سے تسبیح نہیں چھوڑی۔ تسبیح کا ایک فائدہ اور بھی ہے، وہ یہ کہ یہ (تسبیح) دوسروں میں ذکر کا شوق اور رغبت پیدا کرتی ہے۔ (اقتباس)