سرینگر ۔ 28اگست (سیاست ڈاٹ کام) نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام میں دفعہ 35A سے متعلق تشویش اور اس دفعہ کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومتی کو فورطور پر سپریم کورٹ میں جوابی حلف نامہ دائر کرکے اس کیس کو خارج کروانا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ آئین ہند کی اس دفعہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اور خرمن امن کو آگ لگنے کا اندیشہ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے ۔مسٹر ساگر نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفے ٰ کمال، شمالی زون صدر ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، سینئر لیڈران ڈاکٹر محمد شفیع، پیر آفاق احمد،وسطی زون کے نائب صدر غلام قادر پردیسی، صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر کے علاوہ کئی عہدیداران موجو دتھے ۔علی محمد ساگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ دفعہ 35اے کو ختم کرنے کی سازشوں کا انکشاف نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اسمبلی کے ایوان میں کیا تھا اور اُسی دن نیشنل کانفرنس نے اس دفعہ کے دفاع کی تحریک کا آغاز کیا اور آج اس تحریک میں ریاست کے کونے کونے سے ہر خطے ، ہر مذہب اور ہرطبقے کے لوگ شامل ہیں۔ آج ہر شخص اور ہر تنظیم اپنے اپنے ذاتی نظریات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست کی وحدت، پہچان اور انفرادیت کو بچانے کیلئے سربہ کفن ہے ۔انہوں نے کہا کہ سوموار کو دفعہ 35A کی سماعت سے متعلق ایک افواہ سے ریاست بھر میں حالات قابو سے باہر ہوگئے ، مرکز میں بیٹھے تھینک ٹینک کو اس سے سبق لینا چاہئے ۔ علی محمد ساگر نے کہا کہ مرکزی سرکار کو جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کمزور کرنے کے بجائے ریاستی عوام کا اعتماد اور بھروسہ حاصل کرنے کے لئے ریاست سے چھینے گئے خصوصی مراعات کو بحال کرنا چاہئے ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شیخ مصطفی ٰ کمال نے کہا کہ جب نیشنل کانفرنس نے عوامی سطح پر 35A کو ختم کرنے کی سازشوں کا انکشاف کیا تب سابق پی ڈی پی سربراہی والی حکومت نے مجبوراً سپریم کورٹ میں کیس لڑنے کا من بنایا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی والوں نے بھاجپا اور آر ایس ایس کو ناراض نہ کرنے کی غرض سے اس کیس کو نہ لڑنے کی ٹھان لی تھی لیکن جب عوامی سطح پر دباؤ آیا تو سپریم کورٹ میں وکیل بھیجا گیا۔ڈاکٹر کمال نے کہا کہ پی ڈی پی والوں کو آج دفعہ 35اے کا دفاع یاد آیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سابق حکومت میں تیار کیا گیا تفصیلی رپورٹ چند روز قبل تک سکریٹریٹ میں لاء سکریٹری کے ٹیبل پر دھول چاٹ رہا تھا۔ یہ پی ڈی پی کی دفعہ35اے کے دفاع کے تئیں بے حسی تھی یا پھر بھاجپا کو ناراض نہ کرنے کا اقدام، اس کا جواب قلم دوات والے ہی اچھی طرح دے سکتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس جماعت کے لیڈران نے اقتدار کی خاطر بھاجپا کے سامنے اپنے ضمیر تک کو گروی رکھ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت میں رہ کر پی ڈی پی کے طریقہ کار سے یہ بات عیان ہورہی تھی کہ قلم دوات جماعت آر ایس ایس اور بھاجپا کی سازش میں برابر شریک تھی۔ محمد اکبر لون نے اپنے خطاب میں کہا کہ دفعہ 35 اے اور 370سے ہی آج تک جموں وکشمیر کی شناخت قائم ہے اور ان کے نہ رہنے سے ہمارا وجود ختم ہوجائے گا اور ہماری تہدیب و تمدن کا کہیں نام و نشان باقی نہیں رہے گا، جس کے لئے آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لون نے کہا کہ خصوصی درجہ صرف جموں و کشمیر کو ہی حاصل نہیں ، دیگر ریاستوں کو خصوصی مراعات حاصل ہیں، گجرات سمیت متعدد ریاستوں میں باہر کے لوگ زمین نہیں خریدسکتے ، پھر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون ہی موضوعِ بحث کیوں ہے ۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اور یہی بھاجپا ، آر ایس ایس اور دیگر بھگوا جماعتوں کو کھٹک رہا ہے ۔ پارٹی ترجمان کے مطابق نیشنل کانفرنس کی تمام اکائیوں کی طرف سے اس دفعہ کے حق میں احتجاجی مظاہرے اور جانکاری مہم ریاست بھر میں جاری ہیں۔