حیدرآباد۔/22جنوری، ( سیاست نیوز) خواتین کو شوہروں اور سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے مزید جہیز کے مطالبہ کے تحت ہراسانی اور ان پر گھریلو تشدد کے انسداد کے قانون دفعہ 498(A) کا بیجا استعمال اب مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے اس ضمن میں ایک جوڑے کے مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ میں پولیس کیلئے رہنمایانہ خطوط اور ضابطہ مقرر کردیا ہے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس پی چندرا کمار نے تحمینہ کلیم اور سید کلیم اللہ حسینی کے خلاف ایک سیاسی رہنما کی دختر مجیب زین عارف کی طرف سے درج کردہ شکایت کے مقدمہ کی سماعت کے بعد رولنگ دی کہ مذکورہ قانون 498(A)، اور پولیس اقدامات جوڑے کو دوبارہ ملانے کے مقصد پر مبنی ہونا چاہیئے اور قانون کی اس دفعہ کے تحت درج کردہ مقدمات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس ( ایس پی ) اسسٹنٹ کمشنر پولیس ( اے سی پی) کے درجہ کے پولیس افسر کے ذریعہ تحقیقات کے غیر جانبدار ہونے کی تصدیق کی جائے۔ غیر جانبدار تحقیقات پر مکمل طمانیت حاصل کرنے کے بعد ہی مزید پیشرفت کی جائے۔ جسٹس پی چندرا کمار نے ڈائرکٹر جنرل پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ان رہنمایانہ خطوط سے ریاستی پولیس کو باخبر کریں۔
معزز عدالت نے مزید کہا کہ ڈی ایس پی سطح کے عہدیدار کو تحقیقات میں شوہر کے علاوہ دیگر ناموں کو غیر ضروری شمولیت کا علم ہوجائے تو وہ اپنے اعلیٰ افسر ایس پی یا پھر اس کے مساوی ( ڈی ایس پی ) عہدیدار کی اجازت سے ان ناموں کو حذف کیا جاسکتا ہے۔شکایت موصول ہونے پر کارروائی کیلئے ہر دو فریقین کی کونسلنگ کی جائے۔ کونسلنگ رپورٹ عدالت میں داخل کی جائے۔ ہائی کورٹ نے اپنے رہنمایانہ خطوط میں ہدایت دی کہ ملزم کو صرف جہیز کے مطالبہ پر ہراسانی کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی خودکشی کرلے اور اس کے جسم پر زخموں اور جسمانی اذیت کے نشان عیاں ہوں تو پولیس تحقیقات کے بعد گرفتار کرسکتی ہے؟
عدالت نے وکلاء کو بھی مشورہ دیا کہ وہ دونوں فریقین کو ملانے کا کام کریں خاص کر ایسے فریقین جن کے بچے ہیں ، عدالت نے رہنمایانہ خطوط میں یہ بھی کہا کہ مجسٹریٹ ایسے افراد کو فوری جیل منتقل نہ کریں۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے لاکھوں عوام کو راحت ملے گی۔ سماج میں ایسے واقعات اور شکایت گذاروں کی اکثریت پائی جاتی ہے جو 498(A) کے غلط استعمال سے متاثر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بعض شہریوں نے کہا کہ اس دفعہ 498(A) کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا گیاہے اور قانون کی آڑ میں اپنے مفادات کو منوانے کے علاوہ ہراسانی کی شکایتیں بھی عام ہوتی جارہی ہیں۔ اب عدالت کے اس تازہ فیصلے اور دفعہ 498(A) کی عمل آوری میں رہنمایانہ خطوط سے اس دفعہ کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا جائے گا اور ممکن ہے کہ بے قصور افراد کو راحت نصیب ہوگئی چونکہ اکثر و بیشتر واقعات میں بہو کی شکایت پر شوہر، ساس، خسر کے علاوہ شوہر کی بہنوں اور ان کے شوہروں اور دیگر افراد کو بھی شامل کیا جارہا تھا تاہم اب ان کے تعلق سے جامع تحقیقات ہوں گی اور امکان ہے کہ قصوروار ہی سزا پائے گا۔