حیدرآباد ۔ 25جنوری ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے ریاستی اقلیتی کمیشن کے دفتر کی منتقلی کو عارضی قدم قرار دیا اور کہا کہ نئے کمیشن کی تشکیل کے بعد موزوں دفتر الاٹ کیا جائے گا ۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے کمیشن کے دفتر کی منتقلی کے سلسلہ میں صدر نشین عابد رسول خان کی جانب سے کئے گئے اعتراضات اور عہدیداروں کے رویہ پر کی گئی تنقید پر وضاحت جاری کی ہے ۔ عمر جلیل نے کہا کہ اس طرح کا کوئی قانون یا قاعدہ موجود نہیں ہیں کہ کمیشن کی میعاد مکمل ہونے کے بعد بھی کمیشن اپنی کارکردگی جاری رکھے ۔ موجودہ اقلیتی کمیشن کو حکومت آندھراپردیش نے 16مئی 2013ء کو تشکیل دیا تھا اور اس کی میعاد 18مئی 2016ء کو ختم ہوچکی ہے ۔ آندھراپردیش اقلیتی کمیشن قانون 1998ء کے تحت کمیشن اور اس کے ارکان کی میعاد صرف تین سال ہے اور میعاد کی تکمیل کے بعد کمیشن کی برقراری کا کوئی حق نہیں ۔ عمر جلیل نے وضاحت کی کہ 2جون 2014ء کو آندھراپردیش تنظیم جدید قانون کے مطابق آندھراپردیش ریاست کی تقسیم عمل میں آئی اور نئی ریاست تلنگانہ قائم کی گئی ۔ نئی ریاست کی تشکیل کے باوجود اقلیتی کمیشن نے اپنی کارکردگی کو جاری رکھا اور اُس کی میعاد 25مئی 2016کو ختم ہوگئی ۔ ابتداء میں کمیشن کا دفتر سکریٹریٹ کے جے ۔ بلاک میں قائم تھا اور ریاست کی تقسیم کے بعد یہ حصہ آندھراپردیش کو الاٹ کردیا گیا اور کمیشن کیلئے ایچ ۔ بلاک میں جگہ فراہم کی گئی ۔ اسی دوران صدرنشین کمیشن نے ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے راگھوا سدن میں دفتر کیلئے جگہ حاصل کرلی ۔ عمر جلیل نے مزید وضاحت کی کہ حکومت نے کمیشن کی تشکیل جدید تک اُس کی کارکردگی کی نگرانی کیلئے ایک سکریٹری کا تقرر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ راگھوا سدن جو ایک بڑی عمارت ہے جو چند عہدیداروں کیلئے ضروری نہیں لہذا کمیشن کے دفتر کو عارضی طور پر ارم منزل منتقل کیا گیا ہے ۔ جب کمیشن کی تشکیل جدید ہوگی اُسے مناسب مقام پر منتقل کیا جائے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ کمیشن کے صدرنشین نے میعاد کی تکمیل کے بعد مئی تا ڈسمبر 2016ء تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی کہ میعاد کی تکمیل کے بعد حکومت تنخواہیں ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے اپنی وضاحت کے ذریعہ دفتر کی منتقلی کو حق بجانب قرار دیا اور میعاد کی تکمیل کے باوجود کمیشن کی برقراری کو قواعد کے برخلاف قرار دیا ۔ انہوں نے اوقافی جائیدادوں کے بارے میں سی بی آئی تحقیقات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف ایک مخصوص اوقافی جائیداد کے سلسلہ میں یہ احکامات دیئے تھے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اطلاق ریاست کی تمام اوقافی جائیدادوں پر نہیں ہوتا۔