نبوت و رسالت کا بنیادی مقصد دعوت و تبلیغ، انذار (ڈرسنانا)، تبشیر (بشارت دینا) اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قوم و ملت کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے سعی بلیغ کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انبیاء کرام کی تبلیغ ’’نذیر عریان‘‘ کے مانند ہوتی تھی، جو کسی بہت بڑے خطرے کو آتا دیکھ کر اپنی قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتا ہے، جو لوگ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں وہ نجات پاتے ہیں اور جو لوگ ان کی بات نہیں مانتے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔ (بخاری کتاب الرقاق)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب نبوت کی عظمت اور پھر تبلیغ و دعوت کے ذریعہ حاصل کردہ عظیم الشان کامرانیوں کی بناء بلاشبہ تاریخ انسانیت کے عظیم ترین مبلغ اور داعی ہیں اور یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ آپﷺ نے چند ہی برسوں میں محض اپنی تبلیغ و دعوت سے دنیا میں ایک ایسی تبدیلی برپا کی، جو تاریخ عالم میں اپنی مثال آپ ہے۔ مستشرقین نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ آپﷺ کی زندگی ایک بے مثال داعی اور کامیاب مبلغ کی زندگی ہے اور یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد گو آپ کو مدینہ منورہ میں حکمراں کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، مگر آپﷺ پھر بھی ایک مبلغ اور داعی ہی رہے۔ (The Preaching of Islam: Sir Arnold بحوالہ اردو دائرۃ المعارف)
قرآن مجید کا مطالبہ اور سیرت نبوی کا بنیادی پیغام دعوت و تبلیغ ہے۔ غیر قوم میں اسلام کی دعوت کو عام کرنا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ہدایت بتاکر ان کو دائمی عذاب و عتاب سے نجات دلانا ہے۔ قرآن مجید راست اہل ایمان سے خطاب کرتا ہے، کتنے مقامات پر اللہ تعالی نے ’’اے ایمان والو!‘‘ کے ذریعہ ملت اسلامیہ کو مخاطب فرماکر اپنا پیغام سنایا ہے۔ کہیں پر بھی اسلامی جماعتوں اور گروہوں سے خطاب نہیں ہوا، کیونکہ ساری امت و ملت دیگر ادیان و ملل کے مقابل میں ایک ہی امت اور ایک ہی ملت ہے۔
اہل اسلام کے مقابل میں اللہ تعالی نے یہودی، عیسائی، مشرکین اور مجوس وغیرہ کا ذکر فرمایا، ان کا افکار و نظریات، باطل و فرسودہ عقائد اور تصورات کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان کو مختلف انداز میں، مختلف پیرائے میں دین اسلام کی طرف راغب کیا اور ابدی سعادت کی دعوت دی۔ آج ہماری تمام تر توجہ اپنے مسلک کو حق اور دیگر مکاتب فکر کو باطل و گمراہ ثابت کرنے پر مرکوز ہے۔ میری مراد یہ قطعاً نہیں کہ ہم مسلک حق اہل سنت و جماعت کا دفاع اور حمایت نہ کریں، بلکہ بنیادی طورپر ہمارا مقصود و مطلوب غیر قوموں میں اسلامی شعور و آگاہی کو فروغ دینا، ان کے ذہن و دماغ میں موجود اسلام سے متعلق شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اور نہایت خوش اسلوبی سے دعوت و تبلیغ کے عظیم فریضہ کو انجام دینا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہم مسلک حق کی حمایت و دفاع ضرور کریں گے، اپنی صفوں میں اصلاح و ہدایت کی فکر کریں گے، لیکن اسی منہمک ہوکر اصل مقصود و مطلوب سے پہلو تہی دین اسلام کا عظیم نقصان ہے۔
جب میں طالب علم تھا اور مسلکی اختلافات اور باہمی کشمکش کو دیکھتا تو میں بڑا متفکر رہتا کہ مسلمان باہمی گروپ بندیوں کے شکار ہیں اور عوام پر راہ حق واضح نہیں ہو رہی ہے۔ لوگ جس سے متاثر ہو رہے ہیں، اس کی پیروی کر رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات ابھر رہے ہیں، جماعتیں بن رہی ہیں، تو میرے لئے آیت شریفہ: ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو مکمل کردیا اور تمہارے لئے بطور دین اسلام سے راضی ہو گیا‘‘ (سورۃ المائدہ) کو سمجھنا نہایت دشوار رہا، کیونکہ میں اس آیت کریمہ کو مسلمانوں کے باہمی فرقہ جات، مسالک و مکاتب اور جماعتوں پر نظر کرتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتا۔ مجھے اس آیت کا مفہوم اور دین اسلام کے اکمال اس وقت سمجھ میں آیا، جب میں نے دین اسلام کو اس کے فرقہ جات میں تلاش کرنے کی بجائے یہودیت، مجوسیت، ہندو ازم، بدھ ازم اور دیگر مذاہب و ادیان کے مقابل میں غور کرنا شروع کیا اور ان کے عقائد و نظریات، افکار و تصورات اور مراسم و عبادات کو اسلامی عقائد و اعمال سے تقابل کرتے ہوئے غور کیا، تب میرا دل مطمئن ہو گیا کہ واقعی دین اسلام کامل و مکمل ہے، اب اس میں کمی و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں اور اصولی و بنیادی اعتبار سے اس میں مزید کسی تشریح و توضیح کی حاجت و ضرورت نہیں۔
آج مسلمان بڑی خوش فہمی کے شکار ہیں کہ دین اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، بطور خاص مغربی ممالک میں اسلام کی طرف رجحان و میلان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک قابل لحاظ تعداد اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ دو سال میں نے امریکہ میں گزارے ہیں اور بڑی باریک بینی سے اس حقیقت کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور میں شخصی طورپر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں کی خوش فہمی ہے، کیونکہ آج امریکہ اور مغربی ممالک میں جہاں چند افراد اسلام قبول کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف مسلم نسل بے راہ روی اور دہریت کا شکار ہو رہی ہے، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، ان کو جمعہ و عیدین کا بھی پاس و لحاظ نہیں، حتی کہ وہ بنیادی اسلامی عقائد سے بے بہرہ ہیں اور ہر چیز کو عقل کے پیمانوں پر غور کرنے کے عادی ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف عیسائی مشنریز اپنی تمام تر توانائیاں ساری دنیا میں صرف کر رہی ہے اور بڑی قوت سے وہ عیسائیت کے اشاعت میں سرگرم ہیں۔ ان کی جدوجہد کے مقابل ہم مسلمانوں کی جدوجہد قابل صد افسوس ہے۔ دیگر مذاہب بطور خاص عیسائیت کھوکھلی و کمزور بنیادوں پر قائم ہونے کے باوجود سماجی فلاحی، طبی، تعلیمی اور امدادی خدمات کی بناء اپنے دامن کو کشادہ کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اور ہمارا دین عقلی و نقلی اعتبار سے نہایت موزوں، کامل اور قابل فہم ہونے کے باوجود ہم اس کی حقانیت و صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، جب کہ دشمنان دین اسلام کے خلاف زہرآلود پروپیگنڈا میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ سائنس، ٹکنالوجی اور میڈیا کے اس دور میں جس تیز رفتاری سے اسلام کا فروغ ہونا چاہئے تھا، وہ سراسر مفقود ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان کی سرزمین دعوت و تبلیغ کے لئے سرسبز و شاداب ہے، کیونکہ تعلیم یافتہ قوم کے سامنے بت پرستی کی غیر معقولیت کو واضح کرنا نہایت آسان کام ہے۔