رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم ایک بھی آیت جانتے ہو تو دوسروں تک پہنچادو‘‘۔ دسروں تک دین کی بات پہنچانے، ماحول کو پاکیزہ بنانے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں اپنا حصہ ادا کرنے کی بہت اہمیت ہے۔ اگر کسی نے ایک بھی آیت یا حدیث لوگوں تک پہنچائی تو آخرت میں اس کو اس کا اجر ملے گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو دعوت کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’میں اس کی جان اور اس کے مکان کا وارث ہوں‘‘۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سے بڑا کفیل کوئی نہیں ہے، جو ہمارے گھر اور کاروبار کو محفوظ رکھنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی پر بُرائی سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اسی طرح روزہ رکھنے پر تقویٰ کا، زکوۃ پر مال کی پاکیزگی کا، حج پر غنا کا اور دعوت پر حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جب دعوت دین لے کر افریقہ گئے تو وہاں جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے ذرا اونچائی پر کھڑے ہوکر آواز لگائی: ’’اے جنگل کے جانورو! ہم اللہ کے رسول کے غلام ہیں، تین دن کی مہلت دیتے ہیں کہ جنگل سے نکل جاؤ‘‘۔ لوگوں نے دیکھا کہ جنگل سے ہاتھی، سانپ، بچھو، سب کے سب بھاگ رہے ہیں، یہ منظر دیکھ کر کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔
عبادت کے ساتھ دعوت دین کا کام بھی ضروری ہے۔ ایک دفعہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’’میں حاجیوں کو پانی پلاؤں گا، جو میرے لئے کافی ہے‘‘۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’’میں بیت اللہ میں بیٹھ کر عبادت کروں گا، جو میرے لئے کافی ہے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: ’’میں ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر آتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو کیا پسند ہے؟‘‘۔ جب آپ نے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ کے راستے میں پھرنے اور مسجد میں بیٹھ کر عبادت کرنے کو برابر سمجھتا ہے، وہ ظالم ہے‘‘۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’میرے پاس چھ سو درہم ہیں، اگر میں ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کردوں تو کیا اللہ کی راہ میں پھرنے والے کے برابر مجھے ثواب ملے گا؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کی نیند (سونے) کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکے گا‘‘۔