رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندہ کے لئے ویسا ہی ہوں، جیسا وہ میرے متعلق خیال کرے اور جب وہ پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں‘‘۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’دعا مانگنا عبادت کرنے جیسا ہے‘‘۔ آپﷺ نے بطور دلیل قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا مانگا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس کو دعا مانگنے کی توفیق دی گئی، اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگی جاتی ہیں، ان سب میں اللہ تعالیٰ کو عافیت کی دعا پسند ہے۔ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے قریب ہوتا ہے، پس تم اس حالت میں خوب دعا مانگا کرو‘‘۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندۂ مؤمن کی کوئی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتا۔ اگر دنیا میں کوئی دعا قبول نہیں ہوئی تو اس کے بدلے آخرت میں انعامات سے نوازتا ہے۔ اس وقت بندہ کہے گا کہ کاش! دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی۔ لہذا بندہ کو ہر حال میں دعا مانگتے رہنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دو چیزیں خدا کے دربار میں رد نہیں کی جاتیں، ایک اذان کے وقت کی دعا اور دوسری جہاد کے وقت کی دعا۔ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا بھی رد نہیں کی جاتی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! اس وقفہ میں کیا دعا مانگا کریں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دنیا و آخرت کی عافیت کی دعا مانگا کرو‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ لوگوں کی دعا خاص طور سے قبول ہوتی ہے: (۱) مظلوم کی دعا (۲) حج کرنے والے کی دعا (۳) راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا (۴) بیمار کی دعا، جب تک شفایاب نہ ہو جائے (۵) ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لئے غائبانہ دعا۔ ان سب دعاؤں میں سب سے جلد قبول ہونے والی دعا، کسی بھائی کے لئے غائبانہ دعا ہے‘‘۔ (مرسلہ)