مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
گزشتہ سے پیوستہ:
دعا ء ہر حا ل میں منظور ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسکے آدا ب کی رعایت رکھتے ہوئے ما نگی جا ئے۔ اپنی فقیری و محتا جی کے شدید احساس ‘اللہ سبحا نہ کی بڑا ئی وکبریائی اسکی عظمت و قدرت سے لبریز قلبی اعلیٰ جذبات‘ بندگی و عبدیت کی اعلی عا جزا نہ کیفیا ت اور ایمان و یقین ‘ محبت و عقیدت کی سچی تڑپ کے ساتھ کی جا نے و ا لی دعاء کبھی رد نہیں ہو تی عجزودرماندگی‘ الحاء و زا ری کے سا تھ دعا کیلئے اٹھنے و ا لے ہا تھوں کا رحمت با ری استقبا ل کرتی ہے۔حدیث شریف میں و ارد ہے ‘ بے شک تمھا را پر ور دگا ر بڑا با بر کت اور بلند ہے بہت زیا دہ حیا ء کر نے و ا لا اور کریم ہے وہ اس با ت سے حیا ء کر تا ہے کہ اسکی با ر گا ہ میں دعا ء کیلئے اٹھے ہا تھوں کو نا مرا د لو ٹا ئے۔
دعا ء سے قبل و بعد حمد و ثنا ء‘ درودو سلام کا اہتمام بوقت دعا ء عجزو انکسا ری باوضو رہتے ہوئے قبلہ رخ ہو کر دعا ء کرنا دعا ء کی قبو لیت میں بڑا مؤثر ہے۔ اوقا ت فاضلہ‘ و از ما ن فا ضلہ‘ اور اما کن مقدسہ میں بھی دعا ئیں مقبو ل ہوتی ہیں۔ رات کا آخر ی پہر جبکہ رحمت الہی اپنی رحمتیں نچھا ور کر نے کیلئے بندوں کی طرف متو جہ رہتی ہے اوردریا ئے رحمت جوش میں رہتا ہے‘ شب جمعہ‘ روز جمعہ کی ایک مخصوص سا عت ‘بعضوں کے را ئے میں وہ سا عت امام صا حب کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے اختتام تک ‘اور بعضوں کی رائے میں عصر تا مغرب تک کی ہے ۔ و ضو کے درمیان اور وضو سے فر ا غت کے بعد‘ اذان و اقا مت کے دمیان ‘ فرض نما زوں کے بعد بوقت افطا ر و سحر حا لت رو زہ میں ہر لمحہ و ہرگھڑی بالخصوص لیلۃ القدر میں ‘ تلا وت قر آن کے اختتام پر اس طرح اور بہت سے مبارک اوقات‘ اوقا ت فاضلہ‘ و ازما ن فاضلہ کہلا تے ہیں۔ اما کن مقدسہ جیسے بوقت رویت بیت اللہ شریف‘ اور بیت اللہ شریف سے منسلک سارے مکا نا ت ومقامات‘ مقا م ابرا ہیم‘ حجر اسود‘ حطیم پا ک‘ ملتزم شریف‘ رکن یما نی‘ چا ہ زم زم‘ مطا ف ‘منیٰ ‘ عرفات ‘ مزدلفہ‘ وغیرہ قبو لیت دعا ء کے اہم مقا ما ت ہیں۔ دعا ء کی قبو لیت میںکسب حلال کی بڑی اہمیت ہے۔ رزق حرا م قبو لیت دعا ء میں بڑا ما نع ہے۔ حرا م ذرا ئع اور حرا م اشیاء سے حا صل ہو نے و ا لی کما ئی‘ اور حلا ل اشیا ء کی تجا رت ناجائز طور طریق سے کی جا ئے تو اس سے ہو نے و ا لی آمدنی کے حرا م ہو نے میں شرعا کو ئی کلام نہیں‘ رزق حرام کے سا تھ منسلک رہ کر کی جا نے والی دعا ئیں با ریا بی کے شرف سے محروم رہتی ہیں‘ مبا رک مقا ما ت و مبا رک سا عا ت بھی اسکو با ریا بی کا شرف نہیں بخش سکتیں الاّ یہ کہ کسب حرام کا مرتکب سچے دل سے تو بہ کر کے کسب حرام سے دست بردا ری کا با رگا ہ ایزدی میں عھد کر لے‘ رسو ل پا ک ﷺ کا ار شا د پا ک ہے کچھ لوگ وہ ہو تے ہیں جو دور دراز مقاما ت کا سفر کرکے آسما ن کی طرف دعا ء کیلئے ہا تھ اٹھا تے ہیں اور یا رب یا رب کہکر اپنی حا جتوں کا سؤال کر تے ہیں ۔ با ل انکے بکھرے ہوئے ‘ لباس و بدن گر د آلو د ہو تے ہیں‘جبکہ انکا کھا نا حرام‘ پینا حرام‘لباس حرام‘ انکو حرام ہی سے غذا ء دی گئی توانکی دعا ء کہاں قبو ل ہو گی۔ حدیث پا ک میں و ا رد ہے لقمہ حرام کا عادی بیت اللہ شریف میں دعا ء کرے تب بھی رد کردی جا تی ہے ۔(مسلم)
قبو لیت دعا ء کی مختلف صو رتیں ہو تی ہیں۔ حدیث پا ک میں و ا رد ہے بندہ مؤمن اللہ سے جو بھی دعا ء کرے اللہ سبحا نہ اسکو ضرور عطا فر ما تا ہے ۔ بشرطیکہ اس دعا ء میں کسی گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو‘ جو کچھ ما نگا گیا ہے بعینہ کبھی وہی مل جا تا ہے یعنی و ہ زندگی میں اپنی مرا د پا لیتا ہے یا پھر اسکی مطلوب شئی کا اجرو ـثو ا ب آ خرت میں دیا جا تا ہے، یعنی اسکی دعا ء آ خرت کیلئے ذخیرہ کرلی جا تی ہے یا پھر اسکی دعا ء کے عو ض کو ئی مصیبت و بلاء ڈا ل دی جا تی ہے۔(مسند احمد)
الغرض دعا ء ایک فریضہ بند گی ہے ‘اپنے خا لق و ما لک سے حصو ل قرب کا مؤثر ترین ذریعہ ہے ‘گنہگا ر کو نیک و صا لح بنا تی ہے‘ رو حا نی تسکین‘ قلبی اطمینان اور ذہنی آسو دگی بخشتی ہے۔
امت مسلمہ آج جن حا لا ت سے دو چا ر ہے عا لمگیر سطح پرخوار ی وزبوں حا لی جیسی کچھ اسوقت امت کے دا من گیر ہے ظا ہر ہے یہ سب اللہ سبحانہ کی مرضیا ت سے دو ری کا نتیجہ ہے۔ اللہ سبحا نہ کے بے پا یا ں فضل و انعام اور اسکی خصوصی مدد و نصرت کی و جہ یہ امت جو کبھی دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمراں تھی‘ انسانیت کی قیا دت و اما مت جسکا منصب تھا‘ وہ اگر آسمان کی بلندیوں سے گر کر تحت الثریٰ تک پہو نچ گئی ہو تو یہ کوئی خو ش آئند با ت تو نہیں ہو سکتی اس کیلئے آنکھیں کھو لنے اور حقا ئق کی تہہ میں جا کر انفرا دی و اجتما عی ہر دو طرح سے محا سبہ کر نے کی ضرورت ہے‘ ذلت و پستی ‘ نکبت و بد حا لی سے نکلنے کی ایک ہی را ہ ہے او وہ احکام شریعت کی اتبا ع و پیر وی ہے‘ اپنی زند گی کی ڈوبتی نیّا کو مصیبتوں کے گر دا ب سے بچا کر کنا رے لگا نے او ر اپنی عظمت گم گشتہ کو پا نے کا ایک ہی نسخہ جا معہ ہے اور وہ اپنے رب کے آگے اپنی کوتاہیوں کا سچے دل سے اقرا ر کر تے ہوئے آنسو بہانا اور شب و روز اپنی دعا ؤں سے اسکو منا نا اور را ضی کرنا ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جسکو بھلا کر یہ امت حیرا ں و سر گرداں ہے۔