سید محمد افتخار مشرف
دُنیا سکھ چین کی جگہ نہیں، بلکہ تکلیف اور مشقت کی جگہ ہے۔ ہمیں اس دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا، جس کی زندگی آرام و سکون سے گزر رہی ہو۔ انسان کی زندگی میں ایسے نازک دَور بھی آتے ہیں، جب اسے امداد و اعانت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اسے اس دنیا میں کوئی ایسی طاقت نظر نہیں آتی، جو اس کی مشکلات کو حل کرسکے۔ ایسی حالت میں انسان کا دل و دماغ، ہاتھ پاؤں، غرض جسم کا رواں رواں اس پروردگار عالم کو پکارتا ہے، جس کی بادشاہت کائنات اور عالم کے گوشے گوشے پر اور جس نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ ہمیں ’’دعا‘‘ جیسا انمول ہیرا عطا کیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں، لہذا انھیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، شاید کہ وہ راہ راست پائیں‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۸۶) ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۳۲)
طبرانی کی حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مؤمن کا ہتھیار ہے‘‘۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘۔ ترمذی میں ہے کہ ’’دعا عبادت کا جوہر ہے، اللہ کے نزدیک دعا کی بڑی قدر و قیمت ہے، دعا عبادت کا جوہر اور فرماں بردار بندہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے‘‘۔
دعا کی پہلی شرط توحید و اتباعِ سنت ہے۔ دوسری شرط اخلاص ہے، یعنی سچے اور صاف دل سے دعا کی جائے، محض دِکھاوا نہ کیا جائے۔ تیسری شرط حلال مال ہے۔ جب آدمی کا کھانا پینا اور لباس حلال مال کا ہو تو اس کی دعا ضروری اثر کرے گی۔ چوتھی شرط جھوٹ نہ بولنا ہے، کیونکہ جھوٹ بولنے والا منافق ہے، جب کہ منافق، ریاکار اور مشرک کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ جس دعا میں گناہ اور قطع رحمی کا شائبہ ہو، وہ قبول نہیں ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک بندہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ چھوڑے گا، اس کی دعا مقبول نہ ہوگی‘‘۔ چھٹی شرط جلدی نہ کرنا ہے۔ بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور اس کا فوری اثر دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ممکنات کی دعا کرنا چاہئے، یعنی دعا تو وہی قبول کی جائے گی، جو ممکن ہوگی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن وہ اپنے قانون کے خلاف نہیں کرتا۔
دعا کرنے کے کچھ آداب بھی ہوتے ہیں، یعنی انسان باوضوء ہو۔ طبرانی کی ایک روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے صحیح وضوء کیا، پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے رب سے دعا کی تو اس کی دعا قبول کی جائے گی، خواہ اس کا اثر جلدی ہو یا دیر میں‘‘۔ دعا کرتے وقت رُخ قبلہ کی طرف ہو۔ آپ جب قبلہ کی طرف رخ کرکے بیٹھ جائیں تو اپنی تمام تر توجہ اپنی دعا پر مرکوز کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ توجہ ہٹنے نہ پائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو! اللہ پاک غافل اور لہو و لعب والے دل کی دعا قبول نہیں فرماتا‘‘۔
دعا مسلسل کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ انسان اس سے مانگے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی کمی نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے گڑگڑاکر اور چپکے چپکے دعا کرو‘‘۔ دعا کرتے وقت پہلے اپنے پروردگار کی خوب تعریف کرو، جس قدر ہوسکے اس کی پاکی اور عظمت بیان کرو۔ علاوہ ازیں دعا کے اول و آخر درود شریف پڑھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی، بلکہ آسمانوں میں معلق رہتی ہے۔ دعا مانگتے وقت ہتھیلیوں کا رُخ منہ کی طرف کرلیں، دونوں ہاتھوں کو ملالیں اور پھر دعا کے الفاظ بار بار کہتے جائیں، کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تو تین مرتبہ دعا کے الفاظ دُہراتے۔ جس چیز کی ضرورت ہو صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگیں۔ ترمذی شریف میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہر شخص اپنی ہر ضرورت صرف رب سے مانگے‘‘۔ پھر دعا کے اختتام پر آمین کہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ’’مؤمن بندوں پر ’’آمین‘‘ اللہ پاک کی ایک مہر ہے‘‘۔ دعا کرنے کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر پھیرلیں۔
دعا کسی ایسے مقام پر مانگی جائے، جہاں سکون اور اطمینان قلب نصیب ہو، یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا کو عبادت کے لئے مخصوص فرمایا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے کہ اللہ پاک کے خوبصورت ناموں کے ساتھ دعائیں مانگا کرو۔ دعا پورے بھروسے کے ساتھ مانگو اور یہ یقین رکھو کہ تمہاری جائز مراد پوری ہوگی۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے دعا مانگ رہا ہے تو یہ نہ کہے کہ ’’اے اللہ! یہ چیز مجھے مل جائے اور فلاں کو نہ ملے‘‘۔ دعا میں خیانت نہیں کرنی چاہئے، یعنی نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام مسلمانوں اور عالم اسلام کیلئے دعا کرنی چاہئے۔ (جواہر دعا)