مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
قدرت کے بنائے ہوئے گردشِ لیل و نہار کے اس نظام میں سال کے بارہ مہینے ہیں،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت ہی سے اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینوں کی تعداد مقرر ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں‘‘ اور وہ ذولالقعدۃ الحرام ، ذوالالحجۃ الحرام، محرم الحرام، اور رجب المرجب ہیں۔
اس ارشاد پاک کی روشنی میں محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ، زمانہ قدیم سے ان مہینوں کی حرمت تسلیم شدہ ہے، دورِ جاہلیت جو صدہا خرافات و بے جا رواجات کا زمانہ رہا ہے ان مہینوں کے احترام کو اس میں بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، جنگ و جدال اور انسانی اقدار کے زوال پر مبنی معاشرہ نے بھی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا ہے، قتل و غارت گری جن کا مشغلہ تھا، دشمن کے خون کے جو پیاسے رہا کرتے تھے، انتقام کی آگ میں وہ اس قدر بھڑکتے کہ دشمن سے بدلہ لئے بغیر ان کو چین و قرار نہ آتا، وہ بھی ان حرمت والے مہینوں میں قتل و قتال اور خوں ریزی سے باز آجاتے، ہر طرح کی ظلم و زیادتی اور ایذارسانی، عداوت و انتقام کو اپنے اوپر حرام کر لیتے، یہاں تک کہ اپنے باپ کے قاتل سے آمنا سامنا ہو جاتا تب بھی وہ کوئی انتقامی اقدام کرنے سے گریز کرتے اور ہر طرح اعراض و چشم پوشی سے کام لیتے۔
حرمت والے مہینوں میں محرام الحرام کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اسلامی تاریخ کے اعتبار سے سال نو کا آغاز اسی سے ہوتا ہے، اس مبارک مہینے کی دسویں تاریخ کو یوم عاشورہ کہتے ہیں، آج سے چودہ سو سال قبل اسی دن ایک عظیم سانحہ رونما ہوا، کچھ بدبختوں نے نواسۂ رسول ﷺ جگر گوشۂ بتول، سید نا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ وہ بھی اُس مبارک ہستی کو جن کی نسبت سید نا محمد رسول اللہ ﷺ سے ہے جن کے احسانات ساری انسانیت ہی پر نہیں بلکہ سارے عالم پر اتنے زیادہ ہیں کہ تا قیام قیامت سب ملکر بھی اس کا کوئی بدلہ نہیں چکا سکتے۔ لیکن ان کے لختِ جگر کو شہید کر کے ان ظالموں نے حضرت نبی پاک ﷺ کو اور ان کے اہل بیت کو جو ایذا پہنچائی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ لفظوں میں طاقت کہاں کہ وہ اس کو بیان کر سکیں، قلم کو یارا نہیں کہ وہ اس سنگین حادثہ کا احاطہ کر سکے، کربلا کی زمین اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کے پاکیزہ خون سے لالہ زار ہوگئی، اس کے رنج و غم میں انسان تو انسان کائنات کا ذرہ ذرہ خون کے آنسو رویا ہو تب بھی کم ہے اور اس میں کیا تعجب ہے، کرب و بلا اور مصائب و آلام کی یہ ایسی غم ناک کہانی ہے کہ جس کی نظیر شاید ہی تاریخ کے اوراق پیش کر سکیں۔ حق و باطل کی جنگ اور خیر و شر کی اس معرکہ آرائی نے وہ روشنی بخشی کہ ابدلآباد تک نیکی و بدی کے راہ متعین ہوگئی، شہادت حسین و شہادت اہل بیت نے اسلام کو حیات تازہ بخشی اور یہ درس دے گئی کہ حق پر قائم رہتے ہوئے پرچم حق بلند رکھنے اور باطل سے نبرد آزما ہونے کا نام ہی دراصل اسلام ہے۔ اس کے لئے جان و مال کی گھر بار کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یوم عاشورہ کو عام طور پر اس عظیم واقعہ کی وجہ اہم جانا جاتا ہے، یقینا اس اندوہناک سانحہ نے اس دن کو مزید یادگار دن میں تبدیل کر دیا ہے، لیکن اس دن کی اہمیت روز اول ہی سے مسلّم ہے۔ کئی ایک یادگار تاریخی اہم واقعات اس دن کے صدفِ گرانمایہ میں لاقیمت موتیوں کی طرح محفوظ ہیں۔ یہی وہ مبارک دن ہے جس میں ہم سب کے جدامجد سید نا آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، یہی وہ دن ہے جس میں آسمان و زمین کو خلعت وجود بخشا گیا، اور قلم کی تخلیق ہوئی، یہی و تاریخ ساز دن ہے جس میں سفینہ حضرت نوح علیہ السلام کو کوہ جودی کی آغوش میں بحفاظت تمام پناہ ملی، حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن میں ہوئی، اور نمرود کی ظلم عدوان کی راہ سے دہکائی گئی آگ سے اللہ نے ان کی حفاظت کا سامان ایسے فرمایا کہ اُس آگ کو ان کے حق میں آج ہی کے دن گل و گلزار بنا دیا۔ اسی دن ان کو نعمت خلت سے بھی سرفراز فرمایا گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے آج ہی کے دن نجات حاصل ہوئی، فرعون اور اسکے لشکر کو حق سبحانہ نے اسی دن دریائے نیل میں غرقاب کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کو ظلم کے انجام بد سے آگہی بخشی، یہی وہ مبارک دن ہے جس میں حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں میں اٹھالیا جاکر رفعت و عظمت عطا فرمائی گئی۔ یہی وہ دن تو ہے جس میں حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش و ابتلاء سے نکال کر شفاء کلی بخشی گئی۔ حضرت دائود علیہ السلام کی توبہ بھی اللہ نے اسی دن قبول فرمائی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن حکومت و سلطنت عطاکی گئی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی بھی اسی مبارک دن پھر سے واپس لوٹائی گئی، ان کے فرزند جلیل حضرت یوسف علیہ السلام کو کنعان کے کنویں سے اسی دن زندہ سلامت نکالا گیا۔ حضرت یونس علیہ السلام بھی مچھلی کے پیٹ سے بحفاظت اسی دن باہر نکالے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن میں ہوئی اور اسی مبارک دن میں آسمانوں کی طرف ان کو اٹھا لیا گیا۔ روایات کی رو سے قیامت کا وقوع بھی اسی دن ہوگا۔ ام المومنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہمارے نبی سید نا محمدرسول اللہ ﷺ کا نکاح اسی دن ہوا۔ (ملخص از: فتح الباری، نزہت المجالس)
المختصر یوم عاشورہ فضل و شرف کا حامل اور عظمت و کرامت کا خصوصی دن ہے، اسی لئے اس دن کا روزہ رکھنا سنت و باعث فضیلت ہے۔ نبی پاک سید نا محمدرسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل دورہ جاہلیت میں قریش اس دن روزہ رکھا کرتے۔ خود حضرت نبی پاک سید نا محمد رسول اللہ ﷺ بھی ہجرت سے قبل مکۃ المکرمہ میں اس دن کے روزہ کا اہتمام فرماتے۔ جب آپ ﷺ مدینۃ المنورہ رونق افروز ہوئے تب بھی آپ ﷺ نے عاشورہ کے روزہ کے اہتمام کو باقی رکھا اور اہل مدینہ کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی، لیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تو آپ ﷺ نے اختیار دے دیا کہ اس دن جو چاہے روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔(بخاری شریف ؍۱۸۷۸) شارحین نے لکھا ہے کہ عاشورہ کا روزہ پہلے فرض تھا لیکن جب رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت باقی نہیں رہی، البتہ اس کا استحباب باقی رہا۔ مدینۃ المنورہ میں آباد یہود اس دن روزہ رکھا کرتے اور اس کو عید کا دن خیال کرتے۔ (بخاری شریف ؍۱۸۸۱)، یہود سے جب دریافت کیا گیا کہ اُس دن کیوں روزہ رکھتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ ایک مبارک اور بہت اچھا دن ہے، اللہ سبحانہ نے اسی مبارک دن بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات بخشی۔ اس کے شکرانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ حضرت نبی پاک سید نا محمدرسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’فاَنَا اَحق بموسیٰ منکم فصا مہ و امربصیامہ ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم تو تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور آپ ﷺ نے بھی روزہ رکھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ (بخاری شریف؍ ۱۸۸۰)
مسلم شریف کی روایت میں ’’شکرا للہ تعالیٰ فنحن نصومہ‘‘اور بخاری شریف کی روایت میں ’’و نحن نصومہ تعظیما لہ‘‘ کے الفاظ مروی ہیں۔ امام احمد کی روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں ’’وھواالیوم الذی استوت فیہ السفینۃ علی الجودي فصامہ نوح شکرا‘‘ یہ وہ دن ہے کہ جس دن حضرت نوح علیہ السلام کا سفینہ کوہ جودی سے جالگا جس کے شکرانے میں انہوں نے روزہ رکھا۔ چونکہ مدینہ پاک کے یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے ۔ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں معروضہ پیش کیا کہ یہود بھی روزہ رکھتے ہیں اور ہم بھی اس دن روزہ رکھیں تو اس میں بظاہر ان سے مشابہت معلوم ہوتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عاشورہ کے روزہ کے ساتھ تم ایسا کرو کہ نو محرم کو بھی روزہ رکھ لو تاکہ ان کے عمل سے مشابہت نہ ہو اور فرمایا کہ اگر زندگی وفا کرے تو آئندہ سال میں نو تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اگلا سال آنے سے پہلے آپ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمالیا۔ اس لئے اب مستحب یہ ہے کہ عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ایک روزہ اضافہ کر لیا جائے نو محرم یا گیارہ محرم کا بھی روزہ رکھ لیا جائے۔ یہ امر مستحب و باعث فضیلت ہے۔
نبی پاک سید نامحمدرسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے ’’و صوم یوم عاشوراء یکفر سنۃ ماضۃ‘‘عاشورہ کا روزہ گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے جانے انجانے میں اس سے خطائیں سرزرد ہوسکتی ہیںاس سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا بے نہایت احسان و کرم ہے کہ اس نے اپنی بے پناہ رحمتیں بندوں پر نچھاور فرمانے کے اسباب پیدا فرمائے ہیں۔ بخشش و مغفرت کے دروازے اس نے کھلے رکھے ہیں، نیک اعمال پر جہاں بے پناہ اجر و ثواب کے وعدے ہیں وہیں وہ نیکیاں پچھلی غلطیوں اور سابقہ گناہوں کا کفارہ بنتی رہتی ہیں۔ اللہ سبحانہ کے ارشاد پاک ’’ان الحسنات یذھبن السیّات ‘‘بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں سے اس کی تائید ہوتی ہے، اور حدیث پاک ’’ و اتبع السیّۃ الحسنۃ تمحہا ‘‘برائی کے بعد کسی نیک کام کی انجام دہی اس برائی کو میٹ دیتی ہے ، اس کی تفسیر ہے۔ اللہ سبحانہ ہم سب کو اس سے روشنی حاصل کرنے اور اپنی زندگی کو عملی طور پر سنوارنے کی توفیق بخشے آمین۔