اندرون پندرہ یوم وقف ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ و ڈیجٹیلائزڈ
سکریٹری انچارج اقلیتی بہبود کی اقلیتی اداروں کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس میں ہدایت
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اپریل (سیاست نیوز) ریاست کی تقسیم سے قبل اوقافی جائیدادوں سے متعلق ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹلائز کرنے کیلئے اسپیشل آفیسر وقف بورڈ شیخ محمد اقبال نے جنگی خطوط پر اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ 2 جون سے نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کے پس منظر میں حکومت نے تمام اداروں کے ساتھ ساتھ وقف بورڈ کو بھی ہدایت دی کہ اندرون 15 یوم تنظیم جدید کا کام مکمل کرلیا جائے۔ چونکہ وقف بورڈ میں زیادہ تر ریکارڈ ابھی بھی فائلوں تک محدود ہے لہذا ریکارڈ کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹلائیز کرنا ضروری ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے سبب اوقافی اداروں کی آمدنی کا مناسب استعمال نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی وقف بورڈ کو قواعد کے مطابق وقف فنڈ حاصل ہورہا ہے۔
سکریٹری انچارج اقلیتی بہبود ایس ایس راوت نے آج اقلیتی اداروں کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس میں تنظیم جدید کا کام 15 یوم میں مکمل کرنے کی ہدایت دی ۔ دیگر اداروں کے مقابلہ میں وقف بورڈ میں تنظیم جدید کا کام دشوار کن ہے کیونکہ وہاں ابھی بھی فائلوں کا چلن ہے اور ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا گیا۔ شیخ محمد اقبال نے فیصلہ کیا کہ تمام ریکارڈس کو ہنگامی اقدامات کے ذریعہ کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹلائیز کیا جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے درکار زائد اسٹاف کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ اگر 2 جون سے قبل اوقافی جائیدادوں کا ریکارڈ محفوظ نہیں کیا جاسکا تو پھر ریاست کی تقسیم کے بعد اس کا محفوظ کیا جانا غیر یقینی ہے۔ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے سبب وقف بورڈ کو اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں کئی ایک دشواریوں کا سامنا ہے۔ شیخ محمد اقبال نے بتایا کہ تمام ریکارڈ صرف کمپیوٹر کے ایک بٹن کے محتاج ہوں گے ا
ور اوقافی جائیداد اس کے تحت اراضی ، آمدنی ، کمرشیل ملگیات ، کرایے اور ہر سال وقف بورڈ کو ادا کی جانی والے وقف فنڈ کی تفصیلات بھی اسکرین پر دستیاب رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے مقصد سے اس کام کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2 جون سے قبل تمام جائیدادوں کا متعلقہ ریکارڈ محفوظ ہوجائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص ریکارڈ میں الٹ پھیر کے ذریعہ بے قاعدگیوں کا مرتکب نہ ہوسکے۔
انہوں نے اس کام کیلئے سنٹر فار گڈ گورننس اور دیگر ماہر خانگی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی ادارہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے انہیں فائلوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے لیکن کمپیوٹرائزیشن اور ڈیجیٹلائیزیشن کی تکمیل کے بعد سارا ریکارڈ عوام کیلئے بھی دستیاب رہے گا۔ اسی دوران وقف بورڈ نے درگاہ حضرات یوسفینؒ کے متولی فیصل علی شاہ کے خلاف سی سی ایس میں مقدمہ درج کیا ہے۔ سنٹرل کرائم اسٹیشن نے ایف آئی آر درج کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا ۔ متولی درگاہ یوسفین پر مالیاتی بے قاعدگیوں اور وقف ایکٹ کی خلاف ورزی کی شکایت کی گئی ہے ۔ سی سی ایس نے آئی پی سی کے دفعات 406 ، 403 اور 420 کے علاوہ وقف ایکٹ 1995 ء کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے ایف آئی آر جاری کیا ہے ۔ سی سی ایس کی ٹیمیں اس معاملہ میں مختلف افراد کے بیانات ریکارڈ کر رہی ہیں۔ سی سی ایس کو دی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ درگاہ یوسفین کے غلہ سے 15 دن میں 2 لاکھ 58 ہزار سے زائد کی رقم حاصل ہوئی اور ملگیات کے کرایے 2 لاکھ 11 ہزار اور 200 روپئے وصول ہوئے ۔
کرایہ داروں نے متولی کو اڈوانس کے طور پر ایک کروڑ 54 لاکھ 20 ہزار روپئے ادا کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ وقف بورڈ نے شکایت کی کہ متولی درگاہ کے غلہ سے ماہانہ 10,000 روپئے کی آمدنی ظاہر کرتے ہوئے وقف بورڈ کو ماہانہ صرف 700 روپئے ادا کر رہے تھے جبکہ غلہ سے سالانہ آمدنی تقریباً 60 لاکھ روپئے ہوتی ہے۔ اسی دوران چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ نے درگاہ حضرت سید شاہ رضا پاشاہؒ درگاہ حضرت امر اللہ شاہ اور درگاہ حضرت زہرہ بی صاحبہ تالاب کٹہ میر جملہ کے متولی سید شاہ اسرار حسن رضوی کے خلاف پولیس عابڈس میں شکایت درج کرائی ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ متولی نے 1985 ء سے 2013 ء تک وقف فنڈ داخل نہیں کیا اور نہ ہی آمدنی اور حسابات کی تفصیل وقف بورڈ کو پیش کی ۔ پولیس عابڈس نے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔