درود شریف، قربت اور محبت کا ذریعہ

درود شریف سے غفلت برتنا کتنی بڑی کوتاہی ہے، اس کا اندازہ حضرت عکب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث شریف سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: ’’میرے پاس آجاؤ‘‘۔ ہم لوگ حاضر ہو گئے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے منبر پر چڑھنے لگے اور پہلے درجہ پر قدم رکھا تو بہ آواز بلند فرمایا: ’’آمین‘‘۔ اسی طرح دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ پھر جب خطبہ ارشاد فرماکر آپﷺ نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی، جو پہلے کبھی نہ سنی تھی‘‘ یعنی آپﷺ نے تینوں درجوں پر قدم رکھنے کے بعد ’’آمین‘‘ فرمایا، حالانکہ آمین کہنے کا یہ کوئی موقع نہ تھا؟۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب میں منبر پر چڑھنے لگا تو جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا: ’’وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے، جس نے رمضان کو پایا لیکن اس نے اپنی مغفرت نہ کروالی‘‘ تو میں نے آمین کہا۔ اور جب میں نے دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو اس وقت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ’’وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے، جس کے سامنے آپﷺ کا ذکر آیا اور اس نے آپﷺ پر درود نہ بھیجا‘‘ تو میں نے ’’آمین‘‘ کہا۔ اور جب میں نے تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ’’وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے، جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو ان کے بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کرکے ان کو خوش رکھ کر جنت کا مستحق نہ ہوا‘‘ تو میں نے ’’آمین‘‘ کہا۔
غور کیجئے! یہ کتنے بڑے گناہ ہیں کہ ان کے مرتکبین کے لئے سید الملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بددعا کی اور اس سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’آمین‘‘ فرمایا ہے۔ ان تینوں کا گناہ، ناقدری اور مرتبہ ناشناسی ہے۔ پہلے نے رمضان کی ناقدری کی، دوسرے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ نہ پہچانا اور تیسرے نے ماں باپ کی ناقدری کی اور ان کا مرتبہ نہ پہچانا۔ اللہ تعالی ہم سب کو تمام گناہوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم آپﷺ کے احسان اور شکرگزار رہیں اور آپﷺ کے اعلی مراتب کے لئے اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں۔ یقیناً اس دعا سے، اس صلوۃ و سلام سے ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس شکر گزاری میں ہمارے لئے نعمتوں کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ رحمت حق نے ہم پر فضل و کرم کے دروازے کھولنے کے لئے کیسے کیسے انتظام کر رکھے ہیں، ہم کو کس کس طرح سے نوازا جاتا ہے۔ قدرت کی اس فیاضی پر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیضان پر دل تو کیا جان بھی قربان کردی جائے تو کم ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن مجھے سے قریب ترین اور مجھ پر زیادہ حق رکھنے والا میرا وہ امتی ہوگا، جو مجھ پر زیادہ صلوۃ و سلام بھیجنے والا ہوگا‘‘۔ حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر درود و سلام بھیجے اور میرے لئے اللہ تعالی سے یہ دعا کرے کہ ’’یااللہ! قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے قریب نشست گاہ عطا فرما‘‘ تو اس شخص کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘۔ اللہ تعالی ہم سب کو درود شریف سے شغف اور اس کی برکتوں سے فیضیاب فرمائے (آمین) یقناً جو شخص جتنا زیادہ درود شریف پڑھے گا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا ہی قریب ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں صلوۃ و سلام آپﷺ سے محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
درود شریف کو معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اس سے خواب اور بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو ۳۵ مرتبہ حالت بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ ’’حضرت! آپ کو یہ سعادت کس طرح نصیب ہوئی؟‘‘۔ فرمایا: ’’میں کوئی خاص عمل تو نہیں کرتا، البتہ اللہ تعالی کا مجھ پر یہ خاص فضل رہا کہ میں بکثرت درود شریف پڑھتا ہوں۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، ہر وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا رہتا ہوں، شاید میرے اسی عمل کی بدولت اللہ تعالی نے مجھے یہ سعادت نصیب فرمائی ہے‘‘۔

بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر کسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شوق ہو تو وہ جمعہ کی شب سونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ آیۃ الکرسی اور گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھے۔ اگر کوئی یہ عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرماتا ہے۔ لیکن اس کے لئے چار شرطیں ہیں، ایک شوق دیدار، دوسری اکل حلال، تیسری صدق مقال اور چوتھی گناہوں سے اجتناب۔
خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بہت بڑی سعادت ہے، اللہ تعالی ہر مسلمان کو یہ سعادت نصیب فرمائے (آمین) لیکن اس سے بھی بڑی ایک سعادت اور ہے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بند آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے، یعنی ہر وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیش نظر رکھا جائے، اس عمل سے بھی ان شاء اللہ تعالی! خواب میں زیارت نصیب ہو جائے گی۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے دین سلامت رہتا ہے اور ایمان پر خاتمہ ہوتا ہے اور خاتمہ بالخیر ہونا ہی فلاحِ آخرت کی ضمانت ہے۔ آخر میں ایک بات اور عرض کردوں، جس پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ بے شمار فائدے حاصل ہوں گے۔ وہ عمل یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد آنکھیں بند کرکے روضۂ مبارک کا تصور کیا جائے اور وہ تصور اس طرح ہو کہ ’’ہم روضۂ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے ہیں اور پھر اسی حالت میں آپﷺ کی خدمت اقدس میں یہ سلام عرض کیا جائے: ’’الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ!، الصلوۃ والسلام علیک یاحبیب اللہ!، الصلوۃ والسلام علیک یارحمۃ للعالمین!، الصلوۃ والسلام علیک یا خاتم النبیین!، الصلوۃ والسلام علیک یاشفیع المذنبین!‘‘۔ (اقتباس)