ہندوستان کے بشمول پوری دنیا میں پانی کے مسائل اور قحط سالی کا شدید خطرہ
حیدرآباد ۔ 30 ستمبر (ایجنسیز) ہندی مہینوں کے اعتبار سے یہ آسین کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں ایرکنڈیشن چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی لیکن سال 2017ء میں اے سی چلانا پڑ رہا ہے۔ جاریہ سال ستمبر میں ہی دہلی کے بشمول شمالی ہندوستانی کے 68 شہروں کا درجہ حرارت 10 ڈگری سے زیادہ رہا ہے۔ راجدھانی دہلی میں تو یہ 43.7 ڈگری سلسیس تک پہنچ گیا جوکہ ستمبر کے پہلے ہفتہ کے اعتبار سے ایک ریکارڈ ہے۔ یہ محض ایک اعداد و شمار نہیں ہے بلکہ بڑھتے درجہ حرارت کی ڈراؤنی تصویر ہے۔ سال 2016ء کے بارے میں سنٹر فار انوائرمنٹ نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق 116 سال میں 2016ء ہندوستان کی تاریخ کا سب سے گرم سال تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس 21 ویں صدی کی شروعات سے اب تک یعنی سال 2000ء سے اب تک ہندوستان میں 1.26 ڈگری سلسیس درجہ حرارت کا اضافہ ہوچکا ہے۔ فروری 2017ء تک کے اعدادوشمار کے مطابق یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ گذشتہ 116 سالوں میں اوسطاً 2.95 ڈگری سلسیس درجہ حرارت کا اضافہ ہوچکا ہے۔ گرمی کا یہ مسلسل اضافہ ایک ڈراؤنی تصویر ہے۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ محض ہندوستان میں نہیں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ سب سے خوفناک حال یوروپ کا ہے، جہاں ایک قسم سے دنیا میں سب سے کم درجہ حرارت ہوتا ہے کیونکہ پوری دنیا میں یوروپ سب سے ٹھنڈا مقام مانا جاتا ہے لیکن گذشتہ 100 سالوں میں یہاں بھی درجہ حرارت میں دو ڈگری سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہیکہ یوروپ کی جمی برف 20 فیصد تک پگھل چکی ہے۔ اعدادوشمار 1970ء سے یوروپ کے درجہ حرارت میں2.2 ڈگری سلسیس کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف (ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر) نے حالیہ برسوں میں کئے گئے سروے کے مطابق اپنی رپورٹ میں یہ انتباہ دیا ہیکہ 16 اہم شہروں میں گذشتہ 30 سالوں کے دوران ہر 5 سال میں درجہ حرارت ایک ڈگری سلسیس بڑھ رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت ہی خطرناک ہے۔ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے دنیا کے کئی ملکوں میں بار بار خشک سالی کے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ پانچ سال پہلے اسپین میں جو زبردست قحط سالی آئی تھی، اس کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ تھا۔ اس قحط سالی نے اسپین کی معاشی طور پر کمر توڑ دی تھی حالانکہ ابھی تک یوروپ میں قحط صرف معاشی کمزوری کا ایک پہلو ہے لیکن درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کا اثر جلد ہی لوگوں کی صحت پر پڑے گا۔ اس لئے بڑھتی ہوئی گرمی سائنسدانوں کیلئے تشویش کا ایک موضوع بنا ہوا ہے۔ 2001-04ء میں 1970-74ء کے مقابلے میں روم کا درجہ حرارت اوسطاً ایک ڈگری درجہ حرارت اور کوپین ہیگن کے درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ لندن اور لکژمبرگ جیسے شہر میں بھی درجہ حرارت ان برسوں میں 2 ڈگری سلسیس بڑھ گئے تھے۔ سائنسداں زمین پر گرین ہاؤس کے اثرات کو اس کی اہم وجہ مانتے ہیں۔ کارخانوں، آٹو موبائیل، پاور پلانٹس سے نکلنے والے دھوئیں کو اس کی اہم وجہ بتاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی چار سال پہلے کی رپورٹ میں آگاہ کرچکا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کے سبب درجہ حرارت کافی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ یوروپی ملکوں میں درجہ حرارت اپنی حد کو پار کرچکا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ اگر حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو 2100ء تک پورے یوروپ میں 1.4 سے 5.8 ڈگری سلسیس تک درجہ حرارت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہا تو پانی کے مسائل بھی پیدا ہوں گے، پانی کی کمی کے سبب زراعت متاثر ہوگا، ساتھ ہی زیادہ درجہ حرارت کے سبب تمام پاور پلانٹس بند کرنے پڑ سکتے ہیں۔ نتیجتاً بجلی کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔