اڈوانسڈ ڈیفنس اسٹیڈیز امریکہ کی رپورٹ میں انکشاف
حیدرآباد۔24جون(سیاست نیوز) دبئی رئیل اسٹیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری مشتبہ افراد کی ہے اور اس سرمایہ کاری کے ذریعہ دبئی کے رئیل اسٹیٹ میں اچھال کی جو خبریں ہیں وہ امریکی ادارہ کے مطابق ان تنظیموں کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری ہے جن پر امتناع ہے اس کے علاوہ ایسے انفرادی اشخاص بھی دبئی میں جائیدادیں خریدتے ہوئے سرکایہ کاری کررہے ہیں جو اپنی شناخت کے ساتھ اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہیں۔ دبئی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے متعلق امریکی ادارہ ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز کے مطابق کا دعوی ہے کہ جنگی سرغنہ‘ دہشت گردوں کی امداد کرنے والے اور منشیات کی تجارت میں ملوث افراد دبئی میں سرمایہ کاری کے ذریعہ خصوصی معاشی زون کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور دبئی کو اپنی سرگرمیوں کے لئے دولت کی منتقلی کے مرکزمیں تبدیل کرنے لگے ہیں۔ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز کے مطابق تحقیق کے دوران 100 ملین ڈالر کی ایسی سرمایہ کاری کی نشاندہی کی جاچکی ہے جو کہ مشتبہ ہے اور دبئی میں جائیدادوں کی خریداری میں کی گئی سرمایہ کاری ہے ۔ جائیدادوں کی خریداری میں ایسا نہیں ہے کہ صرف بڑے وسیع و عریض بنگلے خریدتے ہوئے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے بلکہ سنگل بیڈروم فلیٹس کی خریدی کے ذریعہ بھی ایسی تنظیموں اور شخصیتوں کی جانب سے پراجکٹس میں سرمایہ لگایاجارہا ہے جو ممنوعہ ہیں۔ اونچی عمارتوں کے شہر دبئی کے علاقوں برج العرب‘ برج الخلیفہ کے علاوہ دیگر سرکردہ علاقوں کے اطراف جہاں آزادانہ سرمایہ کاری کی گنجائش موجودہے ان مقامات پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے سلسلہ میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنے ممالک میں جمع کردہ غیر محسوب دولت کی بھی دبئی میں آزادی کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس سے ہونے والی آمدنی کو اپنے استعمال میں لایا جا رہاہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ رپورٹ میں 70 ملین ڈالر ایسی دولت کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ اپنے ممالک میں غلط طریقہ سے کمائی گئی تھی لیکن یہ دولت دبئی میں بطور سرمایہ جائیداد کی خریدی میں صرف کی گئی ہے۔ اسی طرح ایک اور ادارہ کے بھی 21 ملین ڈالر کی نشاندہی کی گئی جو کہ پاکستانی شہریوں کے ہیں اور اس دولت کا استعمال دہشت گردی کے فروغ کیلئے کیا جانے والا ہے۔ تحقیق کنندہ ادارہ نے امریکی محکمہ دفاع اور متحدہ عرب امارات کوانتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے جن لوگوں کی تجارت اور رقمی معاملتوں و منتقلیوں پر امریکہ کی جانب سے تحدیدات عائد کی گئی ہیں وہ بھی دبئی کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔
باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دبئی میں جائیدادوں کی خریدی کے ریکارڈس امریکہ کی طرح عوامی دستاویزات نہ ہونے کے سبب ان دستاویزات کے حصول اور مکمل تیاری کیلئے امریکی ادارہ نے خانگی کمپنی کے ریکارڈس کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی ہے جو کہ سرمایہ کاروں اور دبئی کے علاوہ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیاہے۔دبئی کو ابتداء سے ہی غیر محسوب اثاثہ جات کیلئے انتہائی محفوظ مقام تصور کیا جاتاہے اب دبئی میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر امریکی نظریں مرکوز ہونے لگی ہیں ۔ دبئی کے عالیشان علاقہ پام جمیرہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بنگلہ اور گولف کورس کے علاوہ افغانستان میں بینک کے دیوالیہ کے بعد افغانستان کی جانب سے اسی علاقہ میں 2تاجرین کے 18بنگلوں کی نشاندہی نے صورتحال کو آشکار کیا تھا لیکن اب بھی دبئی غیر محسوب آمدنی کی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا رہا ہے مگر اب جبکہ یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ دبئی میں غیر سماجی و دہشت گرد عناصر کے علاوہ ممنوعہ تنظیموں کی سرمایہ کاری عروج پر ہے تو ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اب یہ سرمایہ کاری کیلئے محفوظ مقام باقی نہیں رہے گا بلکہ دبئی کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے دیگر ممالک میں بھی سرمایہ کاری خطرہ سے خالی نہیں رہے گی کیونکہ امریکی اداروں کی نظریں دبئی میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر مرکوز ہوچکی ہیں اور انہوں نے سرمایہ کاروں کی نشاندہی کرنی شروع کردی ہے۔ بتایاجاتاہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے دبئی ودیگر مقامات پر کی جانے والی سرمایہ کاری کی دولت کی جانچ کا تیقن دیا تھا لیکن اب تک بھی بہ آسانی سرمایہ کاری کے طریقۂ کار سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ دبئی کے صیانتی امور کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اسی لئے امریکی ادارہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو متنبہ کرتے ہوئے سرمایہ کاری کرنے والوں کی دولت ‘ تنظیموں اور شخصیتوں کی جانچ کو یقینی بنانے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ ملک کے صیانتی امور کو کسی قسم کا کوئی چیالنج درپیش نہ رہے اور نہ ہی دہشت گردی کو فروغ دینے والی تنظیموں کے اثاثوں میں اضافہ کا راستہ باقی رہے اس کے علاوہ غیر محسوب آمدنی کی سرمایہ کاری کے ذریعہ اپنے ممالک کو نقصان پہنچانے والوں پر بھی نظر رکھی جا سکے ۔