ہم جیسے ننگ انسانیت لوگوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب کماحقہٗ کہاں ممکن ہے، جتنی بھی ادب کرو کم ہے، جتنی بھی تعظیم کرو تھوڑی ہے۔ ہمارے اسلاف نے ادب کی بجاآوری کے ایسے ایسے نمونے چھوڑے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ کیسے غلام ہوں گے، جو رہتے تو مدینہ میں تھے، لیکن پاس ادب کی خاطر رفع حاجت کے لئے حدود مدینہ سے باہر نکل جاتے تھے۔ اللہ اللہ! وہ کیسے باادب لوگ تھے، جو مسجد نبوی میں کتاب کا ورق آہستہ الٹتے تھے، تاکہ آواز نہ ہو۔ اللہ اللہ! وہ کیسے بے باک لوگ تھے، جو مسجد میں ذرا آواز بلند ہو گئی تو بادشاہوں کو تک ڈانٹنے میں انھیں کوئی باک نہ ہوتا تھا۔ اللہ اللہ! وہ کیسے پاکیزہ لوگ تھے، جنھیں بے وضو حالت میں حضور اکرم صلی اللہ کا نام نامی اسم گرامی تک زبان پر لانا گوارا نہ تھا:
ہزار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست
یعنی میں نے اپنا منہ ہزار مرتبہ مشک و گلاب سے دھویا، مگر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی آپ کے اسم گرامی کو اپنی زبان سے ادا کرنا پوری پوری بے ادبی سمجھتا ہوں۔
ہم لوگ جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کی جگہ حضور، سرکار، آنحضرت، آنحضور، رسول اللہ، رسول اکرم، آقا و مولی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ہی ہے۔ اس سلسلے میں صحابہ کرام کی روش پر آپ نے غور کیا؟ وہ بے ادبی ہی کے ڈر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیتے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ ’’رسول اللہ‘‘ کہتے تھے۔ اگر مخاطب کرنا ہوتا تو ’’یارسول اللہﷺ!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ’’یا محمدﷺ‘‘ کہہ کر مخاطب نہ کرتے تھے، کیونکہ کسی منصب پر فائز شخص کو اس کا نام لے کر مخاطب کرنا بے ادبی ہے۔ ایسے شخص کو اس کے منصب کے حوالے سے مخاطب کرنا چاہئے۔
در دل ما مقام مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است
ہمارے دلوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور آپﷺ کے نام سے ہی ہماری عزت و آبرو ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا احساس کرنا چاہئے، آپ کی عظمت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ میں حاضر و غائب کی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا، میں تو صرف اتنا جانتا ہوں:
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم گنہگاروں کے غم خوار ہیں، وہ ہماری صلاح و فلاح کے چاہنے والے ہیں، وہ رؤف و رحیم ہیں، ان کی عظمت کو سمجھنا چاہئے، ان سے نسبت قائم کرنا چاہئے، ان کے دامن سے وابستہ ہو جانا چاہئے، پھر ہمارا دامن مرادوں سے بھر جائے گا اور ہمارے دامن میں شمس و قمر آگریں گے، ان کے غلام ہوکر تو دیکھو:
اس کے دامن میں ہے مہتاب و نجوم و خورشید
جس نے تھاما مرے سرکار تمہارا دامن
دامن رحمت عالم کو ہے تھاما ہم نے
اب نہ خالی کبھی دیکھو گے ہمارا دامن
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے لئے سرمایہ دین و ایمان ہے۔ جب تک یہ حق ادا نہ ہوگا، ہم مسلمان ہی نہیں ہوسکتے، کیونکہ حضور صلی الہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تے مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کو اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو‘‘۔
محبت کو سمجھنے کے لئے ہمیں کسی لمبے چوڑے فلسفے اور منطق کی ضرورت نہیں، محبت ایک معروف لفظ ہے اور اس کے معنی بھی معروف اور معلوم ہیں اور وہی معنی یہاں بھی مراد ہیں، یعنی دل کی وہی خاص کیفیت جس کو محبت کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے، اسی کا ہم سے مطالبہ ہے اور یہی ہمارے ایمان کی جان ہے۔ ہاں اس پر غور کریں کہ محبت کے اسباب کیا ہیں؟ یہ کیوں ہوتی ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دوسری تمام محبتوں پر غالب کیوں ہونا چاہئے؟
محبت کے چار اسباب ہیں، یہ ان میں سے کسی بھی سبب سے ہوسکتی ہے: (۱) ایک سبب تو اچھی صورت ہے، یعنی کسی میں حسن صورت ہے اور وہ ہمارے دل کو بھا جائے تو ہمیں اس سے محبت ہو جاتی ہے (۲) دوسرا سبب اچھی سیرت ہے، یعنی کسی کے عادات و اطوار، صفات و اخلاق، خصائل و شمائل اتنے اچھے ہوں کہ وہ ہمارے دل کو بھاجائیں تو ہم ان کی خوبیوں کی بناء پر محبت کرنے لگتے ہیں (۳) تیسرا سبب احسان ہے، یعنی کسی نے ہم پر کوئی احسان کیا ہو تو ہم اس کے ممنون ہوکر اس سے محبت کرتے ہیں (۴) چوتھا سبب خود محبت ہے، یعنی کوئی ہم سے محبت کرتا ہو تو جواب میں ہمیں بھی اس سے محبت ہو جاتی ہے۔
ان چاروں اسباب محبت میں سے کوئی ایک سبب ہی محبت کے لئے کافی ہوتا ہے، لیکن اگر کہیں ایک سے زیادہ اسباب محبت جمع ہو جائیں تو محبت پھر اسی نسبت سے قوی تر ہو جاتی ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے معاملے میں صورت حال یہ ہے کہ یہاں ایک دو نہیں، بلکہ محبت کے سارے اسباب موجود ہیں اور ہر سبب اتنا شدید ہے کہ کسی اور مخلوق کی محبت کا سبب نہ اتنا شدید ہے اور نہ ہو سکتا ہے، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت کے مستحق ہیں اور آپ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب ہونا ہی چاہئے۔ (اقتباس)