آپ کہتے ہیں پرایوں نے کیا ہم کو تباہ
بندہ پرور کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو
داغدار وزرا اور سپریم کورٹ رولنگ
سیاست کو مجرموں اور سزا یافتہ افراد سے پاک کرنے کی مہم ہندوستان میں وقفہ وقفہ سے موضوع بحث بنتی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ۔ ہر مرتبہ اس سلسلہ میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیان بازیاں ہوتی ہیں اور ہر جماعت یہ ادعا کرتی ہے کہ سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کے سلسلہ میں اس کی کوششیں سنجیدگی پر مبنی ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے دعووں اور ان کے بیانات سے ملک کے عوام بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ جماعتیں جہاں سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی تائید کرتی ہیں وہیں یہی جماعتیں انتخابات کا وقت آتا ہے تو سب سے زیادہ ٹکٹس ان افراد کو بانٹتی ہیں جن کے ریکارڈز میں زیادہ سے زیادہ جرائم درج ہوں۔ ہر جماعت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انتخابات میںجرائم کا ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ روشن رہتے ہیں۔ جب انتخابات میں کامیابی کی بات آتی ہے تو سیاسی جماعتیں اخلاقیات اور اصولوں کا درس بھول جاتی ہیں اور وہ یہی چاہتی ہیں کہ اس کے زیادہ سے زیادہ امیدوار کامیابی حاصل کریںا ور اسے اقتدار حاصل ہوجائے ۔ اقتدار کی اسی لالچ کا نتیجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد یا جرائم کا ریکارڈ رکھنے والوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد قانون سازی کے ایوانوں تک پہونچ رہی ہے چاہے وہ اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ ہو ۔ سبھی ایوانوں میں ایسے بے شمار ارکان موجود ہیں جن کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مقدمات صرف سیاسی نوعیت کے ہیں اور انہیں انتقامی جذبہ سے نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یقینی طور پر ایسے مقدمات بھی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ زیادہ تعداد ایسے مقدمات کی ہے جن سے سماج کو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کئی سیاستدان رشوت ستانی ‘ قتل ‘ جبری وصولی ‘ ٹیکس چوری ‘ ڈرانے دھمکانے ‘ رائے دہی کے وقت بے قاعدگیوں اور اب تو اپنی سیاسی دوکان چمکانے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کروانے کے بھی مقدمات میں ملوث ہیں جس کی مثال ہمیں مظفر نگر کے فسادات سے مل جاتی ہے جہاں بی جے پی کے ارکان اسمبلی اور سہارنپور میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے فسادات بھڑکانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اب بی جے پی کے رکن یوگی آدتیہ ناتھ لو جہاد کے نام پر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا رہے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے داغدار وزرا کے مسئلہ پر اپنی رولنگ دیدی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حالانکہ وہ اپنے طور پر حکومتوں کو کسی طرح کی ہدایت نہیں دیں گے لیکن اس کی اخلاقی ذمہ داری وزیر اعظم اور چیف منسٹروں پر ہے کہ وہ داغدار ریکارڈ رکھنے والے وزرا کو کابینہ سے علیحدہ کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرے ۔ عدالت نے وزیر اعظم اور ملک کی ریاستوں کے چیف منسٹروں کو مشورہ دیا کہ وہ داغدار ریکارڈ اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کو وزارتوں میں شامل نہ کریں۔ عدالت کی رولنگ تو اب آئی ہے ویسے بھی دستوری اور اخلاقی ذمہ داری روز اول سے ہمارے اقتدار کے ذمہ داروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو مجرموں سے پاک کرنے کیلئے عملی طور پر اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیں اور صرف زبانی دعووں اور بیان بازیوں پر اکتفا نہ کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں اب جبکہ سپریم کورٹ کی رولنگ آگئی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اب قوم کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل داغدار ریکارڈ کے حامل وزرا کو علیحدہ کردینے کی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہے ۔ عدالت نے بھی بالکلیہ درست ریمارک کیا ہے کہ ملک کے دستور نے وزیر اعظم اور وزرائے اعلی پر کافی بھروسہ کیا ہے اور ان جلیل القدر عہدوں پر فائز افراد سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اسے پورا کرنے اور اس کی مطابقت میں عمل کرنے کی کوشش کرینگے ۔
داغدار افراد کو وزارتی عہدوں سے نواز نے کی جو روایت ہندوستان میں چل پڑی ہے وہ ملک کے عوام کیلئے ایک طرح کا دھوکہ ہے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کس انداز میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اس سے بھی ہر کوئی واقف ہیں۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کی رولنگ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس پر عمل کرنا وزیر اعظم اور ملک کی ریاستوں کے وزرائے اعلی کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ اس ذمہ داری کو کس حد تک پوری کرتے ہیں۔ ملک کو اور ملک کی سیاست کومجرمانہ پس منظر رکھنے والوں سے پاک کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔ اس میں یقینی طور پر عوام کو بھی اپنا رول ادا کرنا چاہئے اور انہیں بھی اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کے بعد ہرسیاسی جماعت کو اس تعلق سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس سنگین اور انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ کو عوام کی خواہشات اور سپریم کورٹ کی رولنگ و دستوری ذمہ داری کی مطابقت میں حل کرنا حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔