خود آپ سن رہے تھے خموشی کی داستاں
حالات ہی کچھ ایسے تھے وہ بے زبان تھا
داعش کے گھناؤنے جرم
لیبیا سے اغوا کئے جانے والے 21 مصری عیسائیوں کے دولت اسلامیہ کی جانب سے سرقلم کئے جانے کے تازہ ویڈیو کی ساری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے۔ یہ ویڈیو لیبیا کے جہادیوں نے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ دولت اسلامیہ سے منسلک ہیں۔ لیبیا میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے کئی حملے کئے ہیں جہاں کوئی بھی موثر حکومت نہیں ہے، مگر لیبیا میں کئی مسلح گروہوں کی موجودگی میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ دولت اسلامیہ کتنی طاقتور ہے۔ 21 مصری عیسائیوں کے قتل کے بعد لیبیا میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کی گئی اور پھر سے عالمی برادری سے بھی اپیل کی گئی کہ اس تنظیم کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیبیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ عالمی امن و استحکام کے لئے خطرہ ہے تو صدر مصر عبدالفتاح السیسی کو اس خصوص میں حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف عالمی طاقتوں کو یکجا کرکے فوجی طاقت کے استعمال پر غوروخوض کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ صدر مصر نے فرانسیسی صدر اور اطالوی وزیراعظم سے فون پر بات چیت کی ہے لیکن اس طرح کی بات چیت سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ داعش کے بارے میں عام طور پر یہ شبہات پیدا کئے جارہے ہیں کہ یہ تنظیم مغربی طاقتوں کی ایجاد ہے جو عالم اسلام میں بدامنی کی فضاء کو ہوا دینے کے لئے سرگرم ہیں۔ اگر ساری دنیا اس وقت ان شدت پسندوں سے برسرپیکار ہے تو اس کے خاتمہ کیلئے ہماری کوششیں ہنوز کامیاب کیوں نہیں ہورہی ہیں۔ یہ قابل غور امر ہے جو طاقتیں انتہائی متشدد نظریہ پر یقین رکھتی ہیں، اس بارے میں شدت سے تشہیر بھی کررہی ہیں۔ عیسائیوں کی ہلاکت کو ’’وحشیانہ‘‘ عمل قرار دینے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مصر کو اس کا موثر جواب دینا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ آخر داعش کو کس طاقت کی مدد حاصل ہے اور یہ تنظیم کس طرح اپنے جارحانہ عوامل انجام دے رہی ہے۔ صدر امریکہ نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ دولت اسلامیہ کو شکست دی جائے گی لیکن القاعدہ کو شکست دینے میں ناکام امریکہ کو دولت اسلامیہ کی شکل میں ایک اور خطرناک تنظیم کا سامنا ہے تو اس بارے میں عالمی امن کی پیروی کرنے والے اداروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ داعش کی سرپرستی کون کررہا ہے۔ امریکہ گزشتہ ایک سال سے عراق اور شام میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے کررہا ہے۔ اس کارروائی کے باوجود داعش پر قابو پایا نہیں جاسکا۔ انسانیت کے خلاف پے در پے گھناؤنے جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔ 21 مصری عیسائیوں کے سر قلم کرنے کے تازہ واقعہ کے بعد صدر مصر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے کارروائی کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ معمولی عمل ہے۔ مجرموں اور قاتلوں کے خلاف انتقامی کارروائی اور جوابی اقدامات کیلئے موثر فوجی طاقت کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ بلاشبہ داعش کی کارروائیوں کو انسانیت کے خلاف گھناؤنا جرم قرار دیا جارہا ہے۔ داعش سے مقابلہ کے لئے جب امریکی طاقت میدان میں ہے تو اس کو کامیاب بنانے کے لئے دیگر ملکوں کی فوجی طاقت کو بھی میدان میں اُتارنے سردست فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ دہشت گردی میں اضافہ اور کئی علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوششوں سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی کڑی اور ربط مضبوط ہے۔ یہ لوگ افغانستان سے لے کر عراق و چاڈ تک اور کوبانی سے صومالیہ تک پھیلتے جارہے ہیں۔ اس خطے میں داعش کی پیشرفت کا موثر اور جائز جواب دینے کے لئے عصری زمینی کارروائیاں کرنے کے ساتھ منظم فضائی حملوں کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے تو اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔ دوبئی کے خلیفہ نے داعش کی گھناؤنی کارروائی کے بعد صدر مصر سے بظاہر تعزیت کرتے ہوئے دہشت گردی کا بہرحال خاتمہ کرنے میں ہر ممکنہ اقدامات پر زور دیا ہے۔ اس طرح کے بدترین جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ لیبیا اور دیگر ملکوں میں استحکام کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا قلع قمع کیا جائے۔ عرب اور عالمی برادری کے لئے ضروری ہے کہ وہ عراق اور اس کے اطراف و اکناف کے ملکوں کی سکیورٹی کو مضبوط بنانے میں پوری طاقت جھونک دے۔ اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں اور بربریت انگیز گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا لہٰذاتمام ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف منظم قدم اٹھانا ہوگا۔