داعش کے حملوں سے عام افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ

کابل، 7فروری (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان میں 2016میں عام شہریوں کی ہلاکتیں اور بھی زیادہ بڑھ گئیں اس کی وجہ داعش (آئی ایس) کے حملے اور فضائی کارروائیاں تھی۔2009کے بعد فضائی حملوں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ بغیر پھٹے بم اور لوگوں سے متعدد بچوں کی جان گئی ہے ۔اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کل ایک سالانہ جائزہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں کل ملاکر 3،498 عام شہری لڑائیوں کے دوران ہلاک کئے گئے اور 7،920 زخمی ہوئے یعنی پچھلے سال کے مقابلے اس میں تین فی صد کا اضافہ ہوا ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ” نہ صرف یہ کہ زمینی لڑائی بہت بڑھ گئی ۔ عام لوگوں کے استعمال کے مقامات کو بھی میدان جنگ میں تبدیل کردیا گیا جبکہ انہیں نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے تھا۔ مساجد میں خودکش حملے ہوئے ۔ ضلع مراکز، بازار ، رہائشی علاقوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اسکولوں اور ہسپتالوں کا فوجی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔جائزے میں کہا گیا ہے کہ عام شہریوں کی 61 فی صد ہلاکتیں سرکاری مخالف تنظیموں جیسے طالبان اور داعش (آئی ایس ) کے ہاتھوں ہوئی ہیں ۔اقوام متحدہ نے کم از کم 4953لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے لئے طالبان کو موردالزام ٹھہرایا ہے مگر ایک نئی بات یہ ہے کہ داعش کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے جو اکثر شیعہ لوگوں کو نشانہ بناتے ہیںداعش کے لڑاکوں نے کم از کم 899افراد کو ہلاک یا زخمی کیا حالانکہ افغانستان میں یہ نسبتاًً ایک معمول تنظیم ہے مگر پچھلے برس اس نے متعدد خودکش حملے کئے تھے ۔ 2009میں جب اقوام متحدہ نے رپورٹنگ شروع کی ہے خود کش حملوں میں سب سے زیادہ تعداد میں عام شہری پچھلے سال مارے گئے ہیں ۔جتنے عام شہری مارے گئے ہیں ان کا 20 فی صد افغان سلامتی دستون کے ہاتھوں ہلاک ہوا ہے جبکہ حکومت نواز ملیشیاؤں نے 2 فی صد اور بین اقوامی فورسیز نے 2 فی صدر لوگوں کی جان لی ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز کی جانب سے سب سے مہلک کارروائی آبادی والے علاقوں میں مارٹر جسے بھاری ہتھیاروں کا اندھا دھند استعمال ہے ۔