واشنگٹن 23 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) داعش کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں پانچ عرب ممالک کے حصہ لینے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی میں مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ نے عرب ممالک کو یہ احساس دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ داعش نہ صرف امریکہ اور اس کے حلیفوں کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کو بھی وہ بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ کیونکہ جس انداز میں دولت اسلامیہ عراق و شام کے جنگجوؤں نے عراق اور شام میں پیشرفت کی ہے اس سے ان کے عزائم کو بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ داعش جنگجوؤں اور ان کے اڈوں پر فضائی حملوں میں امریکہ کے شانہ بشانہ حصہ لینے والے 5 عرب ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور اردن شامل ہیں۔ مصر بھی داعش کے خلاف فضائی حملوں میں اگرچہ حصہ نہیں لے رہا ہے
لیکن السیسی کی حکومت نے ان حملوں کی تائید و حمایت کی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ داعش کی پیشرفت پر پریشان ایران، امریکی زیرقیادت اس عالمی اتحاد میں شامل نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش سے عراق، شام، اردن، لبنان کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ خاص طور پر شام کے پڑوسی ملک اردن کو اس انتہا پسند تنظیم سے راست خطرات درپیش ہیں۔ پچھلے دو ماہ سے اردن کے شمالی اور مشرقی سرحدی علاقوں میں دراندازی، فائرنگ کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ اردنی فضائیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ منگل کی صبح رائل اردن ایر فورس کے لڑاکا طیاروں نے داعش کے چنندہ اڈوں کو نشانہ بناکر تباہ کردیا۔ یہ تمام حملے شامی سرزمین پر کئے گئے۔ داعش کے خلاف فضائی حملوں میں ٹام ہاک کروز میزائیلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا گیا۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے منگل کی صبح بتایا کہ شامی علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ویسے بھی مملکت شام گزشتہ تین برسوں سے خانہ جنگی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ تاہم مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے زیرقیادت اتحادیوں کے ان فضائی حملوں سے علاقہ میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ ایسی جنگ ہے جو طویل عرصہ تک جاری رہ سکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے خلاف شام میں مصروف دیگر عسکریت پسند گروپس بھی داعش کے ساتھ ہوجائیں۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے دفاعی تجزیہ نگار تین برسوں سے شامی صدر بشارالاسد کے خلاف اپوزیشن کی تائید میں فضائی حملے نہ کرنے سے متعلق امریکی پالیسی پر سوالیہ نشانات اُٹھارہے ہیں۔