خیر و بھلائی جمع کرنے کا مہینہ

مولانا محمد شمشاد علی صدیقی

خالق دوجہاں کا ہزارہا احسان ہے کہ عالم میں موجود جن و انس کو رمضان المبارک جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ اس ماہ کے ہر لمحہ اور ہر گھڑی کو رحمت سے بھر دیا گیا ہے۔ اس مبارک و مسعود ماہ میں انعامات اور ثواب میں بہت اضافہ کردیا جاتا ہے، پس اس کو حاصل کرنے والوں کی جستجو اور مقدر کی بات ہے کہ کون کتنا رب العالمین سے نیک بختیاں سمیٹتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر دیا جاتا ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی ماہ رمضان المبارک میں ایک بار سبحان اللہ کہتا ہے تو اس کو اس قدر ثواب ملتا ہے، جو غیر رمضان المبارک میں ایک لاکھ بار سبحان اللہ کہنے پر ملتا ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ دار کے لئے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں‘‘۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے، جس کے اندر ریا (دِکھاوے) کی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ عمل ایسا ہے، اس کو جب تک ظاہر نہ کیا جائے کسی کو علم نہیں ہوسکتا کہ ہمارا روزہ ہے اور مالک ارض و سماء کو باطنی عبادت بہت زیادہ پسند ہے، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں پوشیدہ ایک پیسہ دینا، ان سات سو پیسوں سے افضل ہے، جو ظاہر میں دیئے جائیں‘‘۔ رمضان المبارک کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں قرآن مجید نازل فرمایا، چنانچہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’ماہ رمضان وہ ہے، جس میں قرآن اُتارا گیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار یا مسافر ہو، اسے دوسرے دِنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر کرو‘‘۔ (سورۃ البقرہ)

جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخر رات تک بند نہیں ہوتے، جو کوئی بندہ اس ماہ مبارک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر سجدہ کے عوض اس کے لئے سترہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سُرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے، جس میں ستر ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے دونوں پلڑے سونے کے بنے ہوں گے، جن میں سرخ یاقوت جڑے ہوں گے۔ پس جو کوئی ماہ رمضان المبارک کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ مہینہ کے آخر دن تک اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے، دوسرے رمضان تک اس کے لئے کفارہ ہو جاتا ہے اور ہر وہ دن جس میں یہ روزہ رکھے گا، اس کے ہر روزہ کے بدلے میں اسے ایک ہزار سونے کے دروازوں والا محل جنت میں عطا ہوگا اور اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار ملائکہ دعائے مغفرت کرتے رہیں گے۔ رات اور دن میں جب بھی وہ سجدہ کرے گا، اس کے ہر سجدہ کے عوض اسے ایک ایسا درخت جنت میں عطا کیا جائے گا کہ اگر اس کے نیچے ایک گھوڑ سوار سو برس تک چلے تو پھر بھی اس درخت کے دوسرے سرے تک نہ پہنچ سکے گا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کے حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہئے اس سے بچا تو جو (کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے، اس کا کفارہ ہو گیا‘‘ (بیہقی) اسی طرح ایک دوسری حدیث شریف میں، جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا مزید ارشاد ہے کہ ’’بندہ نے اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وجہ سے چھوڑا ہے‘‘۔ ان دونوں احادیث میں روزہ داروں کے لئے بہت بڑی بشارت ہے، یعنی جس نے روزہ اس طرح رکھا، جیسا کہ روزہ رکھنے کا حق ہے، یعنی پیٹ کو کھانے پینے سے اور اپنے آپ کو جماع سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعضاء کو بھی گناہوں سے باز رکھا تو وہ روزہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے لئے تمام پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گیا۔ یقیناً ہمیں روزہ رکھنے کی وجہ سے رب تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو رہی ہے، جو ایک مسلمان کے لئے عظیم سرمایہ ہے۔

ایک مرتبہ حضرت محمود غزنوی نے قیمتی موتیوں کی تھال اپنے افسران کے سامنے بکھیرتے ہوئے فرمایا: ’’جس کو جو موتی پسند آئے چن لے‘‘ اور خود آگے بڑھ گئے۔ تھوڑی دُور آگے جانے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو ایاز گھوڑے پر سوا ان کے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ محمود غزنوی نے پوچھا: ’’ایاز! کیا تجھے موتی نہیں چاہئے؟‘‘۔ ایاز نے عرض کیا: ’’عالی جاہ! جو موتیوں کے طالب تھے، وہ موتی چن رہے ہیں، مجھے تو موتی نہیں بلکہ موتیوں والا چاہئے‘‘۔ اسی طرح ہم کو دنیا نہیں، بلکہ دنیا کا مالک چاہئے اور جو شخص یہ چاہتا ہو، اس کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اللہ کے احکام کا تابعدار اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع کرنے والا بنائے، تب ہی وہ ہمہ جہتی کامیابی و کامرانی سے سیراب و فیضیاب ہوگا۔