حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر انسان میں خیر اور شر ہے، تم لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ‘‘۔ آدمی اگر اچھے موڈ میں ہے تو خیر ہے، وہی شخص اگر غصے میں آجائے تو چہرہ بگڑ جاتا ہے اور زبان قابو میں نہیں رہتی۔ اس وقت اگر وہ اپنے اوپر قابو پالے تو اپنے شر سے لوگوں کو بچا سکتا ہے۔
شریعت نے اس سلسلے میں بڑا خوبصورت اصول بتایا ہے کہ اگر انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ میں لوگوں کو نقصان پہنچاؤں، پھر وہ خود پر قابو پالے تو شریعت کہتی ہے کہ اس کو صدقہ کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔ اس نے کیا تو کچھ بھی نہیں، لیکن اس کو تین فائدے حاصل ہو گئے۔ ایک تو گناہ سے بچا، دوسرے اللہ تعالی کے عذاب سے بچا اور تسرے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی لکھی گئی۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اگر تم نے دوسروں کو اپنے شر سے بچایا تو یہ تمہارے لئے صدقہ بن جائے گا‘‘۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ اگر تم کسی کو خوشی نہ دے سکو تو غم بھی نہ دو۔ اگر تم دوستی نہیں کرسکتے تو دشمنی بھی نہ کرو۔ اگر تم کسی کی تعریف نہیں کرسکتے تو برائی بھی نہ کرو۔ اگر ان اقوال پر عمل کیا جائے تو کبھی کسی سے بیر نہ رہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’وہ انسان برباد ہو گیا، جس کے دل میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے رحمت نہ رکھی ہو۔ جو لوگوں کو تکلیف پہنچائے اور دل آزاری کرے تو جہنم میں ایک وادی ’’ویل‘‘ ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہے، جو عیب جو اور عیب گو ہوں گے‘‘۔ ’’عیب جو‘‘ یعنی عیب تلاش کرنے والا اور ’’عیب گو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے متعلق کسی بات کا پتہ چل جائے تو ہر مجلس میں کہتا پھرے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’دونوں میں سے جو بھی بیماری ہوگی، اس کے لئے ویل ہے‘‘۔ ویل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آگ سے بنے ہوئے ستون ہوں گے، جن سے ان کو باندھ دیا جائے گا۔
یہ چند روزہ زندگی اگر اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت میں گزر جائے تو پھر آخرت کی ابدی زندگی میں راحت ہی راحت ہوگی، لہذا اس مختصر سی زندگی میں احتیاط لازم ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’قیامت کے دن نیکیوں کا پلڑا اگر جوں کے انڈے کے برابر ذرا سا بھی ہلکا پڑ جائے تو اعلان ہوگا کہ فلاں کا بیٹا ہمیشہ کے لئے نامراد ہو گیا‘‘۔ (مرسلہ)