مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
انسانی جان لا قیمت ہے، کسی انسان کی جان لینے کا اللہ کے سوا کسی کو حق نہیں، جو زندگی کا مالک ہے اور وہی نظام قدرت کے تحت کسی انسان کو موت کی آغوش میں پہنچاتا ہے۔ بعض ایسے جرائم ہیں جن کی پاداش میں اسلامی حکومت ثبوت و شواہد کی روشنی میں سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔کسی گھناؤنے جرم، جیسے قتل عمد کے ثبوت و شواہد موجود ہوں تب بھی اسلامی حکومت کے سواکسی اور کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ غیظ و غضب اور ناروا جذبات کی وجہ آئے دن اخبارات میں ناحق قتل کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ دینی و عصری علوم کی روشنی پہلے بہت کم تھی، لیکن پچھلے ادوار میں ظلماً قتل کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر تھیںاور اب بکثرت علمی و اصلاحی مراکز کے قیام اور علم کی روشنی عام ہونے کے باوجود ہمارا سماج قتل و غارت گری کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سودی لین دین کے معاملات میں اختلاف، زمین و جائداد کے کاروبار میں شراکت داروں کے درمیان اختلاف، خاندان میں جائداد کی تقسیم میں ہونے والے اختلاف، سماجی اعتبار سے پسماندہ لڑکے سے کسی کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی کا معاشقہ پھر ان کے درمیان شادی جیسے معاملات کا اختلاف وغیرہ وغیرہ جیسے امور میں تقریباً ہر روز کہیں نہ کہیں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، چنانچہ حالیہ دنوں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک خاندان کی لڑکی ایک ایسے مرد کے معاشقہ میں گرفتار ہوگئی جس کی پہلے ہی سے دو بیویاں موجود تھیں، وہ اپنی مرضی سے اس کی تیسری بیوی بننے کیلئے تیار ہوگئی اوراس سے نکاح کرلیا ظاہر ہے لڑکی والے اس کیلئے تیار نہیں تھے ، لڑکی کے بھائیوںنے اس شخص کو سخت انتباہ دیا اور فوری اپنی بہن کے ساتھ جدائی اختیار کرلینے کی سخت تاکید کی، اخباری بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی خود اس سے چھٹکارا پانے کیلئے تیار نہیں تھی، بھائیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی بہن کا جوان ہوتے ہی کسی نیک اور دیندار لڑکے سے نکاح کا بندوبست کرتے کہ اس کے قدم کسی ایسے راستہ کی طرف اٹھنے نہ پاتے جو رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ حدیث پاک میں پانچ چیزوں میں عجلت کرنے کی تاکید آئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے نکاح میں جلدی کی جائے قبل اس کے کہ فضیحت و رسوائی دامنگیر ہوجائے،
یہ بھی ضروری تھا کہ بہن کی دینی نہج پر تربیت کی جاتی اور ایسے راستوں پر روک لگائی جاتی جو اس کو کسی غیر مرد تک رسائی حاصل کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں، ان اسباب میں لڑکیوں کا بے حجابانہ، غیر شرعی نیم برہنہ لباس زیب تن کرکے باہر نکلنا، فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی کے ناروا ستعمالات وغیرہ ہیں جنہوں نے کئی عزت دار گھرانوں کی شرافت و نیک نامی کو نیلام کردیاہے۔ بھائیوں نے اپنے فریضہ منصبی کو بھلا کر غیض و غضب کے ناروا جذبات کے تحت انتقام کی راہ اختیار کی اور ایک قتل کا منصوبہ تیار کیا، اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے انہوں نے اپنی بہن اور بہنوئی کو کھانے پر مدعو کیا، ان دونوں نے یہ سمجھا کہ چلو دعوت میں شریک ہوجائیں تو اس شادی کی وجہ جو ناراضگی بھائیوں کی ہے وہ ختم ہوجائے گی لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ دعوت کے بہانے عداوت کا منصوبہ تھا، چنانچہ بہن بہنوئی خوشی خوشی دعوت میں پہنچے تھے کہ اچانک بہنوئی پر بھائیوں نے حملہ کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ان کی خوشی و مسرت کے جذبات کو خاک میں ملا دیا۔ اس موت کی وجہ سے تین خواتین بیوہ ہوگئیں اور ان کے چار بچوں پر یتیمی کا داغ لگ گیا۔ زمینات کے معاملات میں لین دین اور اختلاف کی وجہ سے بھی قتل کی وارداتیں پیش آتی ہیں، یعنی انسان پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسلام نے انسانیت کے احترام کو تسلیم کیا ہے، اس لئے اسلام میںانسان کے خون کی حرمت ہے خواہ وہ کسی مذہب و فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خون کا پیاسا ہے، جب کہ اسلام دشمن طاقتیں خونِِ مسلم سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کسی نفس و جان کو قتل مت کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘۔ (الانعام؍۱۵۱)
یہاں حق سے مراد قانون قصاص کے تحت اسلامی حکومت کا کسی قاتل کو قتل کی سزا دینا ہے چونکہ ’’قصاص میں انسانیت کیلئے حیات و زندگی کا پیغام ہے‘‘(البقرہ؍۱۷۹)۔ حجۃ الوداع کے موقع پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق پر مشتمل جو خطبہ ارشاد فرمایا ہے وہ سنہرے نقوش میں لکھ لیا جائے تب بھی کم ہے، ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمہاری جان اور تمہارا مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر اس کی حرمت کی وجہ ایسے ہی حرام ہیں جیسے یہ شہر مکہ اور یہ مبارک مہینہ اور آج کا یہ تمہارا دن حرمت والا ہے‘‘۔
انتقام کی آگ میں جل کر ارادتاًناحق کسی کا قتل کیا جارہاہے اور قتل میں وہی ہتھیار جیسے تلوار، چاقو، خنجر وغیرہ استعمال کیے جارہے ہیں جن سے عام طور پر کسی کی جان لی جاتی ہے، اس لئے اس کے قتل عمد ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور ایسے ہی قتل پر سخت وعید فرمائی گئی ہے، ارشاد باری ہے: ’’جو کوئی قصد و اِرادہ کے ساتھ کسی مومن کا قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ سبحانہ کا غضب ہے اور اس کی لعنت ہے اور اس کیلئے اللہ نے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے‘‘(النساء؍۹۳)۔ قتل ناحق کے سوا کسی اور جرم پر اللہ سبحانہ نے ایسی شدید ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا، کفر و شرک کی سزا دائمی دوزخ کا عذاب ہے اور قتل ناحق کی سزا میں بھی اللہ سبحانہ نے خلود فی النار کا ذکر فرمایا ہے، البتہ شارحین نے اتنا فرق بتایا ہے کہ سچی توبہ سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے، توبہ کی توفیق نہ ملے تو دراز مدت تک ایک مومن کو یہ سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس آیت پاک کی تلاوت کرنے والے کو اس کے معنی و مفہوم کا استحضار نصیب ہوجائے تو خوف الٰہی سے اس کا دل دہل جائے، اعضاء و جوارح خوف آخرت سے لرز جائیں اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کائنات ارضی کی وسعت وعظمت اس کی ہر شئے سے جھلک رہی ہے اور یہ اس کے بنانے والے کی عظمت و تقدیس اور اسکی بڑائی و کبریائی پر دال ہے۔ لیکن فرمان نبی ﷺ ہے ’’ اللہ سبحانہ کے ہاں اس عظیم دنیا کے ختم ہوجانے سے کہیں زیادہ ایک بے قصور مومن کا قتل و خون ہے‘‘۔ امت مسلمہ کی اصلاح کیلئے اور خون ناحق سے بچنے کیلئے یہ وعید کافی ہے، اتنی سخت وعید کسی مومن کو خون ناحق کے جرم سے نہ روک سکے تو پھر اس کے ایمان پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
اس وقت انسانی معاشرہ حیوانیت و درندگی، ظلم و سفاکی کی آماجگاہ بناہواہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ایمان و اسلام کی نعمت سے بہرہ مند افرادانسانیت بھی ظلم و زیادتی اور خون ناحق میں کسی سے پیچھے نہیں، آج کی دنیا تہذیب و تمدن کی دعویدار ہے لیکن بزعم خود اس متمدن و مہذب سماج کے ہاتھ خون ناحق سے رنگین ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امن و قانون کے رکھوالے ہی اس کے پشت و پناہ ہوتے ہیں،خاص طور پر موجودہ جمہوری حکومتوںمیں مال و زر کی پیشکشی اور سیاسی لیڈروں کی سفارش و دباؤ کی وجہ ظالم و قاتل آزادانہ و بے باکانہ گھومتے پھرتے ہیں، اس لئے نت نئے روپ میں دھوکہ دینے والے، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا ریکارڈ رکھنے والے کئی ایک ایسے مجرمین نہ صرف معاشرہ میں ایک باعزت شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں بلکہ سماج میں ایک نمایاں مقام کے حامل نیک نامی کا تمغہ افتخار اپنی دستار پر سجائے ہوئے ہیں۔ جب تک امن و قانون کے رکھوالے حقیقی معنی میں انسانیت کا درد رکھنے والے دیانتدار نہیں بنیں گے سماج کا اس جیسی برائیوں سے خلاصی پانا بظاہر ممکن نہیں۔