خورشید ربانی
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والے اُس مبارک درخت کو دریافت کرلیا گیا، جس کو ساڑھے چودہ سو سال قبل آپﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس درخت کی موجودگی کا انکشاف اردن کی ایک دستاویزی فلم کے ذریعہ ہوا۔ یہ وہ مبارک درخت ہے، جس کو حضورﷺ کی قربت نصیب ہوئی اور اس نے آپﷺ سے نسبت کا اعزاز یوں پایا کہ سرکار پر سایہ کناں رہا، یعنی اپنی محبت کی چھاؤں نور نبوت پر نچھاور کرتا رہا۔ ترمذی شریف میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بارہ سال کے تھے، جب اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کے سفر میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی اور آپﷺ کی اس خواہش کا احترام کیا گیا۔ تجارت کی غرض سے شام جانے والے اس قافلہ نے بیت المقدس کے قریب بصریٰ کے مقام پر قیام کیا اور راستہ میں موجود ایک گھنے درخت کے سائے میں کچھ وقت گزارا۔ یہیں قریب میں واقع ایک کلیسا میں مشہور راہب بحیرا بھی قیام پزیر تھا۔ بحیرا کو ایک بڑے عالم کے طورپر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، وہ کتاب مقدس کا مدرس تھا اور یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے قبل از اسلام بحیرا سے علم حاصل کیا تھا۔
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ میں لکھا ہے کہ بحیرا وہاں اس لئے مقیم تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہاں سے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ ووسلم کو گزرنا ہے۔ وہ مدتوں سے اسی انتظار میں حجاز سے آنے والے قافلوں کی راہ دیکھا کرتا تھا۔ جب ابو طالب کے قافلہ میں بحیرا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو دوڑتا ہوا آیا اور حضورﷺ کا دست مبارک تھام کر کہا ’’یہ تمام جہانوں کے سردار اور اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر مبعوث فرمائے گا‘‘۔
بحیرا سے جب پوچھا گیا کہ ’’اس نے حضورﷺ کو کیسے پہچانا؟‘‘ تو اس نے کہا ’’جب قافلہ ایک گھاٹی سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ درختوں اور پتھروں نے آپﷺ کو سجدہ کیا اور بادل آپﷺ پر سایہ فگن تھا، تو میں نے جان لیا کہ یہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘۔ بحیرا نے مزید بتایا کہ لوگ حضورﷺ کو مہر نبوت سے بھی پہچان سکتے ہیں، جو آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان ہے۔ صاحب دلائل النبوۃ لکھتے ہیں کہ بحیرا نے مہر نبوت دیکھا تو اس کے سر کے بال بکھر گئے اور اس نے بے اختیار ہوکر مہر نبوت کو چوم لیا۔ بحیرا نے قافلہ کے لئے ضیافت کا بھی اہتمام کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کا اعزاز بھی پایا۔ علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زیتون کا نذرانہ بھی پیش کیا۔
کتب تاریخ و سیرت میں درج ہے کہ درخت نے اپنی شاخیں فرط جذبات اور عقیدت کے ساتھ آپﷺ کے سر مبارک پر جھکادی تھیں۔ بحیرا نے ابوطالب سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو شام لے جانے کی بجائے واپس لے جائیں، کیونکہ یہود آپﷺ میں خاتم النبیین کی صفات دیکھ کر حسد کی وجہ سے آپﷺ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ ابوطالب، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ واپس آگئے۔ دلائل النبوۃ میں ابو نعیم احمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان بھی لیا اور بحیرا راہب سے کہا کہ ’’یہ تو وہی نبی آخر الزماں ہیں، جن کے بارے میں ہم نے اپنی مقدس کتاب میں پڑھا ہے اور جن کا تذکرہ ہمارے بزرگ بھی کیا کرتے تھے‘‘۔ بحیرا نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں! یہ وہی نبی ہیں، تم انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ لہذا وہ ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔
ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیرا کی درخواست پر کلیسا میں تشریف لے گئے تو وہ حضورﷺ کے نور سے جگمگا اُٹھا تھا۔ کتب سیرت میں درج ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کی غرض سے دوسری بار بھی شام گئے تھے اور گمان غالب ہے کہ اس درخت کو آپﷺ کی زیارت کا موقع دوسری بار بھی نصیب ہوا ہوگا۔ دلائل النبوۃ میں لکھا ہے کہ آپﷺ کی عمر شریف جب پچیس برس تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر شام جاتے ہوئے بصریٰ کے مقام پر ایک خوش بخت درخت کے پاس رُکے تھے، جہاں قریب ہی ایک معبد میں نسطورا نامی راہب مقیم تھا، ممکن ہے وہی درخت ہو۔ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی اس سفر میں آپﷺ کے ساتھ تھا۔ نسطورا راہب میسرہ کو جانتا تھا، اس نے میسرہ سے پوچھا ’’یہ درخت کے نیچے کون فروکش ہوا ہے؟‘‘۔
میسرہ نے جواب دیا ’’اہل حرم میں سے ایک قریشی ہیں‘‘۔ نسطورا نے کہا ’’اس درخت کے سائے میں کوئی نبی ہی آکر فروکش ہوا کرتا ہے‘‘۔ پھر اس نے پوچھا ’’کیا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے؟‘‘۔ میسرہ نے کہا ’’ہاں، ہمیشہ رہتی ہے‘‘۔ نسطورا راہب کہنے لگا ’’یہ نبی آخر الزماں ہیں۔ اے کاش! میں وہ زمانہ پاتا، جب انھیں مبعوث کیا جائے گا‘‘۔ صاحب دلائل النبوۃ مزید لکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بصریٰ کے بازار گئے، سامان تجارت فروخت کیا اور کچھ سامان خریدا۔ خرید و فروخت کے دوران ایک شخص سے کچھ اختلاف ہوا تو اُس نے لات و منات کی قسم کھالی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے یہ قسمیں منظور نہیں اور آئندہ بھی ایسا نہ کہنا‘‘۔ وہ شخص میسرہ کو ایک طرف لے جاکر کہنے لگا ’’خدا کی قسم! یہ تو وہی نبی ہیں، جن کا ذکر ہمارے علماء نے اپنی کتابوں میں پایا ہے‘‘۔
جب قافلہ واپسی کے سفر پر تھا تو میسرہ نے دیکھا کہ جب گرمی ہوتی تو دو فرشتے نظر آتے، جو آپﷺ کو سورج کی گرمی سے بچاتے۔ الخصائص الکبریٰ میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن مندہ کی ایک روایت نقل کی ہے، جسے انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس سال کی عمر میں شام کا سفر کیا تھا۔ اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک ہوئے، جن کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی اور ان کی ملاقات بصریٰ کے مقام پر بحیرا نامی راہب سے ہوئی تھی۔ اس نے حضورﷺ کے نبی آخر الزماں ہونے کی پیش گوئی کی اور کہا کہ اس درخت کے نیچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آخری نبی کے سوا کوئی اور نہیں بیٹھا۔ اس روایت کے بارے میں علامہ ابن حجر کا کہنا ہے کہ اگر یہ درست ہے تو یہ ابوطالب کے ساتھ کئے گئے سفر کے علاوہ ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے بے شمار واقعات کے بیان سے روشن ہیں، جن میں حضورﷺ سے نسبت، تعلق اور محبت کے کرشمے لَو دے رہے ہیں۔
یہ ایک مبارک درخت ہے اور اس کی یہ شان اور منزلت کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیارے رسولﷺ کے چاہنے والوں کو اپنی نگاہ شفقت و محبت سے ہمیشہ نوازا ہے۔ مشرقی اردن کے علاقہ صفوی میں وادی سرجان کے قریب موجود اس مبارک درخت کی حقیقت سے متعلق دستاویزی فلم میں اردن کی مشہور شخصیتوں کی آراء بھی شامل ہیں، جنھوں نے اس کے حقیقی ہونے کی گواہی دی اور اس کی زیارت کو اپنے لئے بڑی سعادت قرار دیا۔ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف پانے والے اس درخت کی ایک لق و دق صحرا میں موجودگی، جہاں قدرت کا کرشمہ ہے، وہیں اہل اسلام کے لئے محبت و عقیدت کا ایک مرکز بھی بن گیا ہے کہ اسے حضورﷺ سے نسبت حاصل ہے۔ محققین نے وہ شاہراہ بھی دریافت کرلی ہے، جہاں سے ابوطالب کا قافلہ اس درخت تک پہنچا تھا۔ عشاق رسول کے لئے یہ درخت یقیناً ان روحانی قوتوں کا سبب بنے گا، جو حیات جاوداں کا باعث ہیں۔