خوب صورت نہیں بلکہ خوب سیرت بنیں

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
جنت میں مہینہ ختم ہونے کا پتہ جنتیوں کو اس طرح چلے گا کہ اللہ رب العزت کی طرف سے ان کو تحائف ملیں گے۔ جس طرح عید کے موقع پر ہم لوگ اپنے دوستوں کو عید کا تحفہ بھیجتے ہیں، اللہ رب العزت بھی ہر ماہ کے اختتام پر اپنے بندوں کو تحفہ عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد خاوند اپنا تحفہ دیکھ کر خوش ہوگا، بیوی اپنا تحفہ دیکھ کر حوش ہوگی اور بچے اپنا تحفہ دیکھ کر خوش ہوں گے، یعنی ہر ایک کو انتظار ہوگا کہ مہینہ ختم ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے فرشتے پھر تحفہ لے کر آئیں گے۔ غور فرمائی کہ جب کسی دوست کی طرف سے کوئی تحفہ حاصل ہوتا ہے تو ہمیں کس قدر خوشی ہوتی ہے، پھر جو تحائف پروردگار عالم کی طرف سے ملیں گے وہ کتنے خوبصورت ہوں گے اور ان کو دیکھ کر اور وصول کرکے لوگ کتنے خوش ہوں گے۔

اسی طرح عید کا پتہ جنتیوں کو اس طرح چلے گا کہ اللہ رب العزت سال میں عید کے مواقع پر جنتیوں کے لئے دعوت کا اہتمام فرمائے گا۔ جب جنتیوں کو دعوت کا پیغام پہنچے گا تو جنتی سمجھ جائیں گے کہ یہ عید کا موقع ہے۔ غور فرمائیے کہ جب دعوت کھلانے والا اللہ رب العزت ہوگا اور کھانے والے جنتی بندے ہوں گے تو پھر وہ دعوت کیسی ہوگی۔ ہم تو اس دعوت کے لوازمات بارے میں اپنے دماغ سے سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہاں کیا کیا پیش کیا جائے گا۔

خواتین کو حسن و جمال کا بڑا خیال رہتا ہے، کیونکہ وہ حسن و جمال کی شیدائی ہوتی ہیں۔ خوبصورت مکان انھیں پسند، خوبصورت لباس انھیں پسند، کوئی بھی خوبصورت چیز دیکھتی ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ اسے حاصل کرلیں۔ اپنے بارے میں ان کے دل میں یہ تمنا ہوتی ہے کہ میں ایسی حسن و جمال کا نمونہ بن جاؤں، جب کہ اللہ رب العزت نے ان کو حسن و جمال عطا فرمایا ہے، اسی لئے قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے ’’اگرچہ ان کا حسن تمھیں حیران کردے‘‘ یعنی لفظ حسن کی نسبت قرآن نے عورتوں کی طرف کی ہے۔ اللہ رب العزت نے عورت کو حسن عطا کیا اور مردوں کو وقار عطا فرمایا ہے، یعنی مردوں کی شخصیت میں وقار ہوتا ہے اور عورتوں میں حسن ہوتا ہے، جب کہ دونوں کی اپنی اپنی کشش ہوتی ہے۔ عورت کو حسن میں کیوں آگے بڑھایا گیا؟ یہ ایک نقطہ طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، جس کے جواب میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو کھنکتی مٹی سے بنایا، لہذا حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنے، لیکن حضرت حوا علیہا السلام کو اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا، یعنی یہ براہ راست مٹی سے نہیں بنیں، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنائی گئیں۔ اس لئے اللہ تعالی نے ان میں نزاکت اور حسن و جمال رکھ دیا، تاہم مردوں میں اللہ تعالی نے وقار رکھ دیا۔

اکثر خواتین کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے ہیں کہ ’’جنتی عورتوں کا حسن و جمال کیسا ہوگا؟‘‘۔ جب کہ اللہ رب العزت نے یہ بات بتادی کہ جنت کی خادمائیں کیسی ہوں گی اور اس کے بعد جنتی خواتین کے حسن کا انتظام کچھ اور فرما دیا۔ جنت کی خادماؤں کا حسن تو اللہ رب العزت نے بڑی تفصیل سے بتادیا، لیکن جنتی عورت کے حسن کا تذکرہ اتنا زیادہ نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پروردگار عالم یہ چاہتا ہو کہ تم اپنی عورتوں کے تذکرے دوسروں کے سامنے نہ کرو، وہ خود ایسا تذکرہ کرنا کیوں پسند فرمائے گا۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنت میں صرف حوریں ہوں گی، حالانکہ یہ حوریں وہاں کی خادمائیں ہوں گی، جب کہ خادماؤں اور گھر کی مالکن میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس کا قیاس اس طرح کرلیجئے کہ ایک محل میں ایک ملکہ زندگی گزار رہی ہے۔ ملکہ وہ ہوتی ہے جو ساری قوم میں حسن کا شاہکار ہوتی ہے۔ پھر ملکہ کی خدمت گزاری کے لئے چن چن کر خوبصورت لڑکیوں کو محل میں رکھا جاتا ہے، یعنی محل کی خادمائیں بھی خوبصورت ہوتی ہیں، اس کے باوجود ملکہ کا حسن سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جنت کی حوریں خادمائیں ہیں، جن کے حسن کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ تعالی نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ’’جب جنت کی خادماؤں کا حسن ایسا ہوگا تو جنتی عورتوں کا حسن کیسا ہوگا؟‘‘۔

حور کا لفظی مطلب یہ ہے کہ جس کی آنکھ کی سفیدی زیادہ سفید ہو اور سیاہی زیادہ سیاہ ہو۔ علماء نے لکھا ہے کہ جسم کے کچھ حصے ایسے ہیں کہ جو سفید اچھے لگتے ہیں اور کچھ حصے ایسے ہیں کہ سیاہ اچھے لگتے ہیں۔ مثال کے طورپر سر کے بال جتنے زیادہ سیاہ ہوں گے، اتنے زیادہ اچھے لگیں گے۔ پلکیں جتنی زیادہ کالی ہوں گی، اتنی زیادہ اچھی لگیں گی۔ آنکھوں کے اندر سرمہ جتنا زیادہ کالا ہوتا، اتنا زیادہ اچھا لگے گا۔ جسم جتنا زیادہ گورا اور خوبصورت ہوگا، اتنا زیادہ اچھا لگے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے حور نام ہی ایسا رکھ دیا کہ نام سے ہی حسن و جمال کا اندازہ ہو جاتا ہے، تاہم اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ’’یہ حوریں ایسی ہوں گی

، جیسے یاقوت اور مرجان ہوتے ہیں‘‘۔ علماء نے لکھا ہے کہ یاقوت کی طرح شفاف ہوں گی اور مرجان کی طرح سفید۔ اور جنتی عورتوں کے بارے میں فرمایا ’’قصرات طرف‘‘ نگاہیں ہٹانے والیاں غیر سے، جب کہ جنت کی حوروں کے بارے میں فرمایا ’’وہ تو ایسے جیسے انڈوں کے اندر محفوظ ہوتی ہیں اس قسم کی ہوں گی‘‘۔ وہ باکرہ ہوں گی، اس سے پہلے ان کو کسی انسان نے چھوا نہ ہوگا۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جنتی مرد کو اللہ تعالی حسن یوسف عطا فرمائے گا، لحن داؤدی عطا فرمائے گا اور خلق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے گا۔ یعنی جنتی مردوں کے لئے یہ اللہ تعالی کی نعمتیں ہوں گی۔ وہی بات ان جنتی حوروں کی تو ان میں سے ایک ان کی انچارج ہوگی، جس کو حور عین کہتے ہیں، یعنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی حور۔ مگر یہ حور عین بھی جنتی عورتوں کی خدمت پر مامور ہوگی، اس سے جنتی عورتوں کے حسن اور اللہ رب العزت کی عطا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (اقتباس)