خواندگی کے فیصد میں گراوٹ پر پروفیشنل کالجس جے این ٹی یو کے نشانہ پر

کالجس کی مسلمہ حیثیت پر ازسرنو غور، حکومت کے رویہ سے انتظامیہ کو مشکلات
حیدرآباد۔2اپریل (سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے ریاست تلنگانہ میں خواندگی کے فیصد میں گراوٹ کے اعتراف کے بعد ایک مرتبہ پھر ریاست کے پروفیشنل کالجس جے این ٹی یو کے نشانہ پر ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ موجودہ کالجس میں 75فیصد کالجس ایسے ہیں جو جے این ٹی یو ایچ قوانین کی خلاف ورز ی کے مرتکب قرار پائے ہیں اور انہیں اس سال مسلمہ حیثیت کی فراہمی کے متعلق از سر نو غور کیا جائے گا۔ ریاست تلنگانہ میں پروفیشنل کالجس کے ہمراہ حکومت کی جانب سے اختیار کردہ رویہ پر کالج انتظامیہ کو شدید مشکلات سے دوچار ہے لیکن ان کے ان مسائل کو حل کرنے کے کوئی بھی حکومت سے نمائندگی کرنے سے قاصر ہے لیکن حکومت اور سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ ریاست کے خواندگی کے فیصد میں مزید گراوٹ کا سبب بن سکتا ہے ۔ کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریاست میں موجود کالجس میں معیاری تعلیم نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے جے این ٹی یو کے توسط سے بڑے پیمانے پر کاروائی کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن جے این ٹی یو کے تحت چلائے جانے والے کالجس کی کیا حالت ہے اس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے لیکن ان حالات میں خانگی انجنئیرنگ و پروفیشنل کالجس کے خلاف اختیار کردہ رویہ کے سبب کالجس اپنے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ریاست کے انجنئیرنگ و فارمیسی کالجس میں کئے گئے سروے کے متعلق جے این ٹی یو عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 75فیصد کالجس میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی اور کالج انتظامیہ کو اندرون 48گھنٹے وضاحت پیش کرنے کیلئے نوٹسیں جاری کی گئی ہیں لیکن کا لج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جے این ٹی یو کی جانب سے کی جانے والی یہ کاروائی صرف خانگی کالجس کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے ۔ شہر میں موجود ایک سرکردہ کالج کے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ جے این ٹی یو اور حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس کاروائی کا مقصد صرف اور صرف شہر میں ان کالجس کو باقی رکھنا ہے جو سیاسی سرپرستی میں چلائے جاتے ہیں انجنئیرنگ کالجس کی تعداد میں اضافہ کا سب سے بڑا نقصان ان تعلیمی اداروں کو ہوا ہے جو تعلیمی ادارے بھاری ڈونیشن حاصل کرتے ہوئے نشستیں فراہم کیا کرتے تھے لیکن انجنئیرنگ کالجس اور فارمیسی کالجس کی بڑھتی تعداد نے ریاست میں ڈونیشن کلچر کا خاتمہ کردیا تھا لیکن 2014کے بعد سے کالجس کو بند کئے جانے کے عمل نے اس کلچر کو دوبارہ عام کرنا شروع کردیا ہے جس کے سبب نشستوں کی طلب اور فراہمی میں تفاوت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سال 2014میں جس وقت ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی اس وقت ریاست میں 370انجنئیرنگ اور 126فارمیسی کالجس موجود تھے لیکن اب ریاست میں صرف 86فارمیسی اور 212انجنئیرنگ کالجس باقی رہ گئے ہیں۔ آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کی جانب سے 50فیصد کالجس میں رہنمایانہ خطوط پر عدم عمل آوری کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن انہیں ان امور کو بہتر بنانے کیلئے وقت فراہم کیا گیا تھا لیکن جے این ٹی یو کی جانب سے اختیار کردہ رویہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جے این ٹی یو منظم سازش کے تحت ان کالجس کو مقفل کرنے کی کوشش میں ہے۔