خواجہ احمد عباس سماج کے ہارے ہوئے افراد کی آواز تھے

حیدرآباد۔/26 مارچ(سیاست نیوز) خواجہ احمد عباس ایک عظیم جہد کار رہے ہیں جن کی ساری زندگی جدوجہد سے معمور رہی۔ انہوں نے اذکار رفتہ اور فرسودہ نظام کے خلاف اور نئے نظام کے حق میں اپنی خدمات جاری رکھیں۔ جہاں بھی اور جس سماج میں بھی انسان شکست سے دوچار رہا تھا وہاں خواجہ عباس نے اپنی جدوجہد سے اُس انسان کی مدد کی۔ اِن خیالات کا اظہار ڈاکٹر عزیز قریشی گورنر اتراکھنڈ نے’ خواجہ احمد عباس: ایک افسانوی شخصیت اور اُن کی وراثت‘ پر دو روزہ صدی تقاریب کے افتتاحی اجلاس سے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں آج بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ تقریب کا اہتمام شعبہ ترسیل عامہ و صحافت ، اُردو یونیورسٹی اور ’کے اے عباس صدی تقریب کمیٹی نئی دہلی ‘ نے مشترکہ طور پر کیا۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پرو وائس چانسلر نے کی جبکہ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، چانسلر نے کلیدی خطبہ دیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید و عفت فاطمہ کی کتاب ’’Khwaja Ahmed Abbas: Bread, Beauty & Revolution‘‘ (خواجہ احمد عباس: روٹی، حسن اور انقلاب) اور پروفیسر صغرا مہدی کی کتاب ’اگر مجھ سے ملنا ہے‘ کے علاوہ شعبہ ترسیل عامہ وصحافت کے لیب جرنل ’اظہار‘ کی رسم اجرائی انجام دی گئی ۔

گورنر نے کہا کہ خواجہ احمد عباس نے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے کارناموں کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے اور ان دونوں شخصیات سے کافی متاثر بھی تھے۔ جناب قریشی نے کہا کہ سماج میں آج بھی دو گونج سنائی دیتی ہے۔ ایک باپو کی ہے رام اور پستول کی تین گولیوں کی آواز۔ نئی نسل کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ گولیوں کی آواز کے ساتھ جانا چاہے گی یا پھر بابائے قوم کی آواز کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ ان تین گولیوں کی آواز آج بھی سماج میں گونج رہی ہے۔ گورنر نے کہا کہ خواجہ عباس پنڈت جواہر لعل نہرو کو اپنا ہیرو مانتے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ احمد عباس نے کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔

جناب قریشی نے اُن کی ایک فلم کا تذکرہ بھی کیا جس کا دوردرشن پر پریمیئر دکھانے کے عوض رشوت مانگی گئی تھی اور انہوں نے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا۔ جناب قریشی نے کہا کہ خواجہ احمد عباس ساری زندگی اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرتے رہے۔ جن خوابوں کی تعبیر وہ نہ کرسکے اس کی ذمہ داری انہوں نے نئی نسل پر چھوڑ دی ۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے بہت سارے ممالک میں لوگ حقوق کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ فلسطین میں لوگوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ افریقہ اور ایشیائی ممالک میں بھی لوگ اچھی زندگی جینے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو عزت کی زندگی جینے کو ملے، یہی خواجہ عباس کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، چانسلر نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ ڈاکٹر عزیز قریشی نے ہی خواجہ احمد عباس کی یاد میں ’صدی تقریب کمیٹی‘ کی بنیاد ڈالی ہے اور خود اس کے روح رواں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’’میں پیدا ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوچکا تھا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم و ادب خواجہ احمد عباس کو وراثت میں ملا تھا۔

ڈاکٹر سیدہ حمید نے کہا کہ خواجہ صاحب سامراجیت کے بالکل خلاف تھے۔ ان کے دل میں انگریزوں کے تئیں جو غصہ تھا وہ بھی ان کو ورثہ میں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس نے تقریباً 90 کے قریب مختصر کہانیاں لکھی ہیں۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ’ میں کہانی ایک ماہر گھڑی ساز کی طرح لکھتا ہوں۔ میں کبھی پیسوں کیلئے نہیں لکھتا ہوں اور میں اس کہانی کو لکھتا ہوں جو مجھے مجبور کرتی ہو کہ مجھے لکھو۔‘ ڈاکٹر سیدہ حمید نے کہا کہ اگرچہ اپنے ملک میں کچھ فلمیں نہیں چل پائیں تاہم بین الاقوامی سطح پر ان فلموں کو غیر معمولی داد حاصل ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ناول ’’انقلاب‘‘ کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور کئی ملکوں میں شائع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی ناول کو ان کے ملک میں ان کی اپنی چہیتی زبان میں کوئی شائع کرنے کیلئے راضی نہیں ہوا اور بعدازاں انہیں تنگ دستی کے باوجود اپنا سرمایہ خرچ کرکے اس کو شائع کروانا پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ احمد عباس ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مشہور فلم سٹار امیتابھ بچن کو فلموں میں پہلی بار ’’سات ہندوستانی‘‘ فلم میں موقع دیا۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے صدارتی خطاب میں کہا کہ خواجہ احمد عباس انسانیت کے علمبردار تھے اور ملک کی آزادی کی جنگ میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب اُن شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ایک خاص انداز سے ملک، مظلوموں اور بے سہاروں کی خدمت کی۔ پروفیسر ایس اے وہاب قیصر ، انچارج ڈین ایم سی جے نے خیر مقدم کیا اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر ابوالکلام صدر شعبہ اردو نے اجراء کی گئی کتابوں کا تعارف پیش کیا جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر مطالعات نسواں ڈاکٹر آمنہ تحسین نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروگرام کا آغاز ایم فل اسکالرمحمد عدنان کی تلاوت کلام پاک و ترجمانی سے ہوا۔ ڈاکٹر احتشام احمد خان، صدر شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر پروفیسر صغرا مہدی، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے سانحۂ ارتحال پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔