مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کو تمدن بخشا ہے، انسانوں اور حیوانوں کے درمیان فرق کرنے کے جہاںاور بہت سے امتیازات ہیں، ان میں ایک اہم تر امتیاز تمدن کا ہے، لباس انسانی تمدن کا ایک اہم حصہ ہے، اسلام نے مرد و خواتین کے لباس میں بڑا فرق رکھا ہے، لباس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قابل شرم حصوں کو چھپا تا ہے اور اس کی دوسری حیثیت زینت و جمال کی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ اے! اولاد آدم ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپا تا ہے، اور جو با عث زینت بھی ہے۔ (۷؍۲۶)
لفظ لباس تو مصدر ہے لیکن ملبوس کے معنی میں مستعمل ہے جس کے معنٰی پہنے، اوڑھنے کے آتے ہیںظا ہر ہے لباس کا مقصود قابل ستر حصوں کو چھپانے کے ساتھ زیب و زینت اختیا رکر نا ہے، اسلام نے خواتین کے لباس میں سترپوشی کی زیادہ رعایت رکھی ہے چونکہ عورت کہتے ہی ہیں چھپائے رکھی جانے والی چیز کو ، ستر کے خصوصی احکامات کے ساتھ حجاب کے احکامات بھی دئیے گئے ہیں، ان کا مقصود یہی ہے کہ عورت اپنے لباس میں ستر پوشی کا لحاظ رکھنے کے ساتھ حجاب کے تقاضوں کو بھی پور اکر ے، لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حجاب تو رہا ایک طرف ستر پوش لباس بھی اب معاشرے سے بتدریج رخصت ہو تا جا رہا ہے ، اسلام کے احکامات تو اس باب میں بہت اعلـی ہیں لیکن مشرقی تہذیب کی پاسدار خوہران وطن بھی بھر پور لباس پہنا کر تی تھیںجو ستر پوش ہو ا کر تا تھا اور چہرے پر نقاب بھی ڈالا کر تی تھیں، آج بھی قدیم تہذیب کی علمبردار غیر مسلم بہنیں اسی قدیم روش پر قائم ہیں اس قدیم تہذیبی روایت کی پاسداری کی وجہ معاشرہ مفاسد سے اور جرائم سے محفوظ تھا ،گویا مشرقی طرز کے لباس کی وجہ خواتین معاشرے میں با عزت سمجھی جاتی تھیں، کو ئی شر پسند ان پر ہاتھ ڈالنا تو بڑی بات ہے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی بھی جُرأت نہیں کر سکتا تھا، لیکن اس وقت خواتین کی نئی پود نے مشرقی تہذیب کے لباس کو خیر باد کہدیا ہے اور مغربی تہذیب کو سینے سے لگا لیا ہے، اکثر لڑ کیاں ٹی۔ شرٹ اور جینس پینٹ پہنے لگی ہیں جو اتنا چُست ہو تا ہیکہ شاید تکیہ کا غلاف بھی اتنا چُست نہ ہو تا ہو، اس لباس سے جہاں عورت و مرد کے درمیان لبا س کا جو فرق مشرقی تہذیب کی دین تھا وہ اب مغربی تہذیب اپنانے سے مِٹتا جا رہا ہے، ساڑی، کُر تہ،شرٹ ،شلوار مشرقی تہذیب کی علامت سمجھا جا تا تھالیکن اب نئی تہذیب نے ساڑی کو بھی اس قدر چُست کر دیا ہے کہ اُس سے قابل ستر حصے نمایا ں ہو رہے ہیں ساڑی کے ساتھ پہنے جا نے والے کرتے کی جگہ بلوز نے لی جو شروع میں تو قابل قبول درجہ رکھتا تھا لیکن بتدریج آگے بڑھتے بڑھتے اب بریزیرنما بلوز کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جس کی پشت پر مختصر سے کپڑے کی دہجی یا پھر اک آدھ ڈوری ہو ا کر تی ہے ، شرٹ ، شلوار کے ساتھ اوڑھنی لباس کا ایک لازمی حصہ تھا جس سے سر اور سینے کو ڈھانکا جا تا تھا لیکن اب اوڑھنی تو ہوا ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کے ہاں نظر آتی ہے تو وہ صرف گلے کا گلوبند بنی ہو ئی ہے، مختصریہ کہ ہماری اکثر خواتین اور نو جوان بیٹیوں اور بہنوں کا مغرب زدہ لباس نو جوانوں کو اور خاص طور پر دل و دماغ میں برائی کے جذبات رکھنے والوں کو دعوت عام دے رہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم پھیل رہے ہیں اور جنسی جرائم کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس خرابی کو اب سبھی محسوس کر نے لگے ہیں،اور اس کو جنسی جرائم کے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار گردان رہے ہیں، روز نامہ سیاست ۹؍ اگسٹ ۲۰۱۴ کے اخبار میںخواتین کے حیا سوزلباس پر ایک رکن پارلیمنٹ کے تبصرے پر راجیہ سبھا میں شور و غل کے عنوان سے ایک خبر شائع ہوئی ہے ایک غیر مسلم رکن پارلیمنٹ نے خواتین سے خواہش کی کہ وہ ایک با وقار لباس زیب تن کریں، اتنی سی بات کہنا ہی تھا کہ خواتین رکن پارلیمنٹ بھڑک اٹھیں اور ایک ہنگامہ کھڑاکر دیاجس کی وجہ پندرہ منٹ کے لئے اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور ایک خاتون رکن پارلیمنٹ نے تو ایک اچھی بات پیش کر نے والے ممبر پارلیمنٹ کو ایوان سے باہر نکال دینے کا مطا لبہ کیا، کچھ دنوں قبل ہمارے سابقہ ڈی جی پی صاحب نے بھی خواتین کے لباس کے بارے میں اپنے نقطہء نظر کا اظہار کیا تھا جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ،ان کے بیان پر کئی ایک خواتین چراغ پا ہو گئیں اور اس کے خلاف اپنے ناروا جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیانات کے ذریعہ زہر اُگلتی رہیں۔
تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تعلیم جس قدر مردوں کے لئے ضروری ہے عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے، اسلام نے مطلق تعلیم سے منع نہیں کیا ہے بلکہ اسلام نے تو نفع بخش تعلیم کی حوصلہ افزائی کی ہے ،لیکن وہ تعلیم جس سے انسان ایک پا کیزہ نفس انسان بننے کے بجائے انسانی سطح سے نیچے گر جا ئے اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا،ہمارے ملک ہی میں کیا بلکہ دنیا کے سارے جمہوری و مغربی تہذیب کے دلدادہ ممالک میں مخلوط تعلیم اور حیا باختہ لباس کی وجہ روز بہ روز جنسی جرائم و قتل کے واقعات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
اسلام دین فطرت بھی ہے اور دین رحمت بھی یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیما ت خواہ وہ کسی شعبہ حیات میں ہوں راست طور پر انسانی دلوں کواپیل کر تی ہیںاور دلوں کو چھوتی ہیں، لباس کے بار ے میں بھی اس کی ہدایات سر آنکھوں پر رکھنے کے قابل ہیں،خواتین اگر اسلامی احکام پر عمل کر تے ہوئے ستر پوش لباس زیب تن کر یں اور حیا و حجاب کے تقاضوں کو پورا کریں تو وہ بہت سے مصائب سے محفوظ رہ سکتی ہیں، اسلامی احکام کے مطابق خواتین کا لباس ڈھیلا ڈھالا ہو چُست نہ ہو کہ جس سے اعضائے جسمانی نمایاں ہو تے ہوں ،ثخین یعنٰی موٹا اور دبیز ہو مہین و باریک نہ ہو کہ جس سے اندرونی جسم جھلکتا ہو، اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی بھتیجی عبد الرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنھا ایک مرتبہ باریک و مہین اوڑھنی اوڑھے ہوئے آ گئیںتو اُم المومنین ؓ تو بہت ناراض ہو ئیںاور اُس باریک اوڑھنی کے دو تکڑے کر دئیے اور ایک دبیز کپڑے والا دوپٹہ اوڑھا دیا۔ (موطا الامام مالک ۵ ؍۱۳۳۹، رقم الحدیث ۳۳۸۳)
اگر کپڑا مہیہ نہو تو اس کے ساتھ استر لگا کر استعمال کیا جا سکتا ہے چنانچہ حضرت نبی پاک ﷺ نے دحیہ ابن خلیفہ رضی اللہ عنہ کو ایک قبطی کپڑا عنایت فر مایا جو مہین اور سفید ہو تا ہے اور جو مصر میں بنا کر تا تھا یہ کپڑا دیتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی کہ اس کے دو حصے بنالو ایک حصے کا خود کرتا بنالو اور دوسرا حصہ اپنی بیوی کو دے دو کہ وہ اس کا دوپٹہ بنا لے اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ تم اپنی بیوی سے یہ کہو کہ اس کپڑے کے نیچے ایک اورکپڑا لگالے تا کہ اس کپڑے کے مہین ہونے کی وجہ اس کے سر کے بال اور جسم کے حصے نظر نہ آئیں، لباس کے مقصود کو نظر انداز کر کے ایسا لباس زیب تن کیا جائے جس سے نہ صرف حیا کے تقاضے پورے نہ ہو تے ہوںبلکہ بے حیائی کو فروغ ملتاہو یہ ایک قابل وعید عمل ہے۔