خواتین ، سیاسی با اختیاری کے دعوے کے باوجود سماجی طور پر پسماندہ

اُردو یونیورسٹی میں دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح۔ پروفیسر سشیلا کوشک اور ڈاکٹر اسلم پرویز کی مخاطبت
حیدرآباد، 19 ؍ ستمبر (پریس نوٹ) ہندوستان میں خواتین ہوسکتا ہے کہ سیاسی طور پر با اختیار بن گئی ہوں لیکن سماجی طور پر وہ ہنوز پسماندہ ہیں۔ صنف نازک کو جب تک سماجی طور پر مساوات حاصل نہیں ہوتی تب تک سیاسی، معاشی اور تعلیمی طاقت کے حصول کا نعرہ بے معنی ہے۔ پروفیسر سشیلا کوشک، ممتاز سماجی سائنسداں اور ملک میں مطالعاتِ نسواں کی ماہر، نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ وہ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’’با اختیاری تجدید فکر: ہندوستان میں صنف اور ترقی‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی اظہار خیال کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر اردو یونیورسٹی نے صدارت کی۔ یونیورسٹی کا شعبۂ تعلیمات نسواں اس دو روزہ سمینار کا اہتمام اسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز، نئی دہلی کے تعاون سے کر رہا ہے۔ پروفیسر کوشک نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران مطالعاتِ نسواں کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے جبکہ خواتین کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا خواتین کے ساتھ انصاف ہوچکا۔ کیا ان کے مسائل حل ہوچکے۔ خواتین کی با اختیاری پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں پنچایت راج دستوری ترمیمی بل منظور کرتے ہوئے اس سمت میں ایک اہم قدم اٹھایا گیا تھا مگر کیا صرف مجالس مقامی میں خواتین کے لیے تحفظات سے ان کے مسائل حل ہوگئے۔ قانونی پنچایت کیا آج کھاپ پنچایت پر فوقیت رکھتی ہے؟ ممتاز سماجی سائنسداں نے کہا کہ صنفی با اختیاری کا مطلب مردوں کے خلاف لڑائی نہیں بلکہ مردانہ تسلط کی ذہنیت کے خلاف جدو جہد ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم صرف قدرتی نظام میں ممکن ہے۔ اس سلسلہ میں نباتیاتی عمل کی مثال پیش کی۔ سماجی اشاریوں میں بہتری کے باوجود اخلاقی اقدار میں بتدریج انحطاط آیا ہے۔ ہمیں اقدار پر مبنی نظام کو واپس لانے کی ضرورت ہے جس کی ہر مذہب تعلیم دیتا ہے۔ تاہم اس نظام کے احیاء کے لیے منظم کوشش کا نہ ہونا افسوسناک ہے۔ خواتین کے مساویانہ رتبہ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے بتایا کہ قرآن نے بیوی کے لیے ’زوج‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب جوڑا ہے اور جوڑا مساوی ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی تحریک خواتین کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ماں اپنی بیٹی کو تربیت دے کہ وہ کوئی ’’شئے‘‘ نہیں ہے اور بیٹے کو عورت کا احترام سکھائے۔ انصاف سے انصاف پیدا ہوتا اور نا انصافی نا انصافی کا موجب بنتی ہے۔ خواتین کی با اختیاری کے لیے ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ افتتاحی اجلاس کے آغاز پر پروفیسر شاہدہ مرتضیٰ ، کو آرڈینیٹر سمینار و صدر شعبۂ تعلیمات نسواں نے مہمانوں کا تعارف کروایا اور سمینار کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ آزادیٔ نسواں کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود جدید دور میں خواتین کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر امریندر پانی، کنوینر سمینار (اے آئی یو) نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ صنفی امتیاز کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر افروز عالم، صدر شعبۂ سیاسیات نے کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر پروین قمر، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ تعلیماتِ نسواں نے شکریہ ادا کیا۔ سمینار میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ماہرین، اساتذہ اور اسکالرس شریک ہیں۔