خلیفۂ چہارم کمالاتِ مصطفی کے مظہر

آپ ؓکی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ، لقب مرتضٰی اور حیدر ( اسداﷲ) اور اسم گرامی علیؓ ہے سلسلہ نسب یہ ہے علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف ہے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف ہے ۔ ۱۳رجب المرجب ۳۰ عام الفیل مطابق ۶۰۰ء خانہ کعبہ میں آپؓ کی ولادت باسعادت ہوئی اس وقت حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر شریف تیس سال کی تھی آپ کے والد حضرت ابوطالب جو حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا تھے ۔ خانہ کعبہ میں پیدا ہونا اور آغوش رسالت میں تربیت پانا حضرت علی مرتضیؓ کا ایک ایسا شرف ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں یہ بلاشبہ ان پر ایک عنایت کبریائی تھی اور انھوں نے اپنی زندگی راہ خدا اور اطاعت رسولؐ میں صرف کرکے اس عنایت خاص کا حق ادا کردیا۔ ان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی عبادت خدا اور اطاعت رسولؐ سے خالی نہیں تھا ۔ علی مرتضیؓ کو معلم کائنات نے انگلی پکڑکر چلنا سکھایا تھا ۔ اسی لئے ان کے نقوش قدم بے حد واضح ، محکم اور قابل تقلید ہیں ۔ خود انھوں نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ حضور پاکؐ کے پیچھے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ، اسی لئے علیؓ کمالات مصطفی کے مظہر تھے۔ حضرت خدیجتہ الکبری نے آپ ؓ کو حضور پاکؐ کی نبوت کے گرامی منصب کی خبر دی اور حضور پاکؐ نے کفر و شرک کی مذمت کرکے توحید کا سبق دیا توفیق ایزدی سے حضرت علیؓ نے بلاتامل اسلام قبول کیا چنانچہ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے آپؓ تھے ۔ ملت اسلامیہ میں خصوصاً تاریخ عالم میں عموماً حضرت علیؓ جیسی دلاویز شخصیت کہیں نہیں ملتی ۔ فصاحت و بلاغت آپ کے گھر کی لونڈی تھی اور اس میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ آپؓ کی علمی و ادبی شخصیت نہایت بلند و اعلیٰ فضائل کی حامل تھی ۔
وہ جامع کمالات تھے لیکن سب سے زیادہ منکسرالمزاج شگفتہ رو اور نرم طبیعیت اور ہر خاص اور عام کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے والے تھے ، علیؓ نے سادہ زندگی ، مساوات اور نیک کمائی کے لئے محنت مزدوری کی اہمیت اور تعظیم کے نقش عام کردیئے اور خلافت میں بھی ان کا یہی طریقہ رہا کہ ذریعہ معاش کے لئے محنت مزدوری کو ترجیح دی اور خاندانی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو غرباء کے لئے وقف کردیا ۔
آپ کے اقوال مبارکہ خطبات اور عمال سلطنت کے لئے احکام نیز آپ کا فصیح و بلیغ کلام اور پرمعارف مقالات دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اﷲ تعالیٰ نے ایک حیرت انگیز دماغ اور بے مثل علم ودیعت فرمایا تھا۔ رمضان المبارک کی 21 تاریخ یکشنبہ کی شب40 ہجری میں آپ کی روح پرفتوح جنت الفردوس کو سدھاری حضرات حسنین اور عبداﷲ بن جعفرؓ نے غسل دیا اور حضرت امام حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔