ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
نام عثمان، ابوعبد اللہ، کنیت ابو عمرو اور لقب ذوالنورین۔ والد کا نام عفان اور والدہ کا نام اروی بنت کریز تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا نسبی سلسلہ پانچویں پشت میں عبد مناف پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی کی نانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں، اس وجہ سے بھی آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔ (الاصابہ)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولادتِ نبوی کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ اہل عرب کے عام معمول کے برعکس انھوں نے بچپن میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا اور عہد شباب میں تجارت شروع کردی اور اپنی فطری صداقت و دیانت کے باعث غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ آپ متوسط قد، سفید چہرہ،گھنی ڈاڑھی، نرم جسم اور انتہائی باوقار شخصیت کے حامل تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابۂ کرام آسمانِ ہدایت کے ستارے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جن خصوصیات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ممتاز کیا، وہ ان ہی کا حصہ ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ایسے حیاء دار تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیاء کرتے۔ جود و سخا کے ایسے مالک تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سخاوت سے خوش ہوکر ان کو امن اور جنت کی نوید سنائی۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک کے بعد ایک اپنی دونوں صاحبزادیوں (حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہما) کو حضرت عثمان کے عقد میں دیا اور جب دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو وہ بھی عثمان کے نکاح میں دے دیتا‘‘۔ (اسد الغابہ)
خوش نصیب ایسے کہ زبان رسالت سے زندگی میں شہادت اور وصال کے بعد جنت کی بشارت سنی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بدر کے سواء تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اس قدر ملحوظ تھا کہ جس ہاتھ سے رسول اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، اس ہاتھ کو کبھی نجاست یا محل نجاست سے مس نہیں ہونے دیا۔ (کنز العمال)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر روز صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے۔ غریب صحابہ کرام کی فکر میں آپ کا دل ہمیشہ بے قرار رہتا۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے پچاس درہم قرض لئے۔ کچھ دنوں بعد واپس دینے آئے تو لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ’’یہ تمہاری مروت کا صلہ ہے‘‘۔ (تاریخ طبری)
قحط سالی کے دَور میں پیش آئی جنگ تبوک میں جس کو ’’جیش عسرت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، آپ نے ایک ہزار اونٹ (بہ اختلاف روایت)، ستر گھوڑے، ساز و سامان کے ساتھ اور ایک ہزار دینار حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کئے۔ آپ کی ایثار و فیاضی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے اور ایک مژدۂ جانفزا سنایا کہ ’’آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا‘‘۔
(ترمذی، مناقب عثمان)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار جنت کی بشارت دی، اس کے باوجود خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ کسی نے آپ سے اس قدر گریہ کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ ’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے، اگر یہاں آسانی ہو تو سب منازل آسان ہو گئیں اور اگر یہاں دشواری ہوئی تو باقی منازل اس سے زیادہ دشوار ہو گئیں‘‘۔ (مشکوۃ و ترمذی)
خلافت کے زمانے میں عموماً دن کا وقت کار خلافت میں اور رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتے۔ کبھی کبھی ایک رات میں پورا قرآن کریم ختم کردیتے۔ دوسرے اور تیسرے روز عموماً روزہ رکھتے اور کبھی مہینوں روزے سے رہتے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جو سب سے اہم کارنامہ انجام دیا، وہ قرآن مجید کو لغت قریش کے مطابق رائج کرنا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا بیان کرتے ہوئے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ شخص ان فتنوں میں مظلوم شہید کیا جائے گا‘‘۔ (مشکوۃ و ترمذی)
۱۷؍ ذو الحجۃ الحرام سنہ ۳۵ ہجری جمعہ کے دن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما تشریف فرما ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ’’عثمان! جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں‘‘۔
۱۸؍ ذو الحجۃ الحرام سنہ ۳۵ کو شہادت کے وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے اور اس خون ناحق سے جو آیت رنگین ہوئی وہ یہ تھی: ’’فسیکفیکھم اﷲ وھو السمیع العلیم‘‘ ترجمہ: ’’تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے