خلیفۂ دوم… گورنر کا احتساب اور غیر مسلم رعایا کے ساتھ انصاف

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارک میں سلطنت اسلامیہ کو کافی وسعت ہوئی۔ وسعت کے ساتھ ساتھ دولت کی فراوانی تصور سے زیادہ ہو گئی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ کوئی دنیادار حکمراں ہوتا تو اصول و اخلاق کو کھو دیتا اور جلد ہی دنیا سے غائب ہو جاتا، پھر اس کے ساتھ دین بھی خیرباد ہو جاتا۔
ایک دن بحرین کے عامل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سرکاری مال لے کر مدینہ منورہ آئے اور کہا پانچ لاکھ درہم ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو یقین نہیں آیا۔ پھر کئی بار کے سوال پر جب یہ سنا کہ سو ہزار، سو ہزار پانچ مرتبہ تو اتنے متاثر ہوئے کہ لوگوں سے کہا: ’’اتنا مال آیا ہے کہ گننے کی جگہ تول کر باٹا جاسکتا ہے‘‘ (البلاذری: فتوح البلدان۔ ۴۵۳) ایک دو سال بعد ہی صرف صوبہ سواد عراق سے بارہ کروڑ درہم اور مصر سے پانچ کروڑ دینار (یعنی پچاس کروڑ درہم) سالانہ آمدنی ہونے لگی۔ (نفس حوالہ۔۵۴۳)

اس قدر مال و دولت کی فراوانی کے باوجود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نہ اپنی ذات پر اسراف کرتے اور نہ سرکاری مال کا ایک حبہ بھی ناجائز ضائع ہونے دیتے۔ عاملوں (گورنروں) پر انتہائی سخت نگرانی رکھتے۔ تقرر کے وقت ان کی دولت کی مقدار معلوم کرتے اور وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال کراتے اور اگر مشتبہ زیادتی نظر آتی تو نہ صرف معزول کرتے، بلکہ نصف جائداد بھی ضبط کرلیتے۔ (ابن سعد۳:۲۰۳)
تقرر نامہ میں صراحت سے شرط ہوتی کہ وہ شاندار ترکی گھوڑوں (برذون) پر نہ بیٹھے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائیں، باریک اور ملائم لباس نہ پہنیں، دروازے کو بند کرکے چوکیدار نہ رکھیں، بلکہ ہر شخص، ہروقت ان سے ملاقات کرسکے۔ (الذہبی: تاریخ الاسلام۲:۵۵)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شاندار مکان بناکر اس میں ایک دروازۂ داخلہ لگایا۔ اطلاع ملی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو کچھ نہ لکھا، ایک شخص کو مدینہ سے بھیجا کہ اس دروازے کو آگ لگاکر واپس آجاؤ۔ گورنر سمجھ گئے اور سکوت اختیار کرلی۔ اسی طرح یرموک کے فاتحین جب دیباج کے کپڑے پہن کر مدینہ منورہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر سنگ باری کی۔ پھر جب وہ کپڑے بدل کر دوبارہ آئے تو خوش آمدید کہا اور خیر و عافیت دریافت کی (الذہبی۲:۱۱) عیاض بن غنم کو نرم کپڑوں کے استعمال پر گورنری سے معزول کردیا۔ (ابن الجوزی: المنتظم۲)
حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فتح مکہ کے ایک وقفہ کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں یمن کی گورنری کے زمانے میں ایک نجی حمی (محفوظ چراگاہ) بناکر حکم دیا کہ وہاں کسی اور کے جانور نہ چریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں معزول کرکے حکم دیا کہ یمن سے مدینہ تک پیدل آؤ۔ تعمیل میں وہ راستے ہی میں تھے کہ حضرت عمر کی وفات کی اطلاع ملی۔ پھر باقی راستہ سواری پر طے کیا۔ (ابن عبد البر: الاستیعاب، عدد۲۷۶۵)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ میں اس قدر شدت کے باوجود لچک بھی ہوتی تھی۔ شام کے دورے پر گئے تو گورنر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑے خدم و حشم کے ساتھ استقبال کیا۔ ان کے شاندار لباس پر اعتراض کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ’’امیر المؤمنین! یہ سب کچھ دبدبے کے عادی مقامی بوزنطیوں کے لئے ہے، ورنہ وہ ہم کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں، لیکن ہمارے بیرونی نفیس عبا و قبا کے اندر ہمارے کھردرے اور خشونت آمیز عربی لباس برقرار ہیں‘‘۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سکوت فرمایا۔ (ابن کثیر: البدایہ۸: ۱۲۴،۱۲۵)
گورنروں کے تقرر ناموں میں بھی وہ متعلقہ صوبہ کے لوگوں کو مخاطب کرکے کہتے کہ ’’اس گورنر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، جب تک کہ وہ تم میں عدل و انصاف کرتا رہے‘‘۔ (شاہ ولی اللہ دہلوی: ازالۃ الخفا۱:۱۷۲)
ایک طرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنے گورنرس، ماتحت وزراء اور عہدہ داروں کے ساتھ سختی کا معاملہ تھا کہ وہ حکمرانوں میں امتیازات اور تعیش پسندی کو قطعاً گوارہ نہیں کرتے تھے، دوسری طرف آپ کی حکمرانی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ آپ غیر مسلم رعایا کے ساتھ کسی صورت میں ناانصافی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ کے عہد کے ایک نسطوری عیسائی کا ایک خط محفوظ ہے، جس نے اپنے ایک دوست کو لکھا: ’’یہ طائی ’’عرب‘‘ جن کو آج اللہ تعالی نے حکومت دی ہے، ہمارے بھی مالک (حاکم) ہو گئے ہیں، لیکن وہ عیسائی مذہب سے جنگ نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمارے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں (دوسرے فرقوں کی ایذا رسانی سے بچاتے ہیں)، ہمارے پادریوں اور مقدس لوگوں کا لحاظ رکھتے ہیں اور ہمارے گرجاؤں اور راہب خانوں کو عطیے دیتے ہیں‘‘۔ (De.Goege، بحوالہ 2/3 Bible.or: Assemani ص: xcvi)

ملک شام میں مسلمانوں نے ایک یہودی کی کچھ زمین جبراً لیکر وہاں مسجد بنائی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی تو مسجد کو ڈھاکر وہ زمین اصل مالک کے حوالے کردی۔ ایک لبنانی عیسائی پروفیسر شکری قرداحی نے ۱۹۳۳ء میں لکھا ہے کہ یہ ’’بیت الیہودی‘‘ یہودی کا گھر اب تک مشہور اور موجود ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے! اردو دائرۃ المعاف الاسلامیہ، لاہور پنجاب)
٭٭٭