خلیفۂ اول کے افکار و اعمال

مولانا غلام رسول سعیدی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوئی تو بار نبوت سے آپ کے دل میں طبعی اضطرات لاحق ہوا۔ آپﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے اپنی پریشانی اور اضطراب کا ذکر کیا تو حضرت سیدہ خدیجہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’قسم بخدا! اللہ تعالی آپ کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کے کام آتے ہیں‘‘ (بخاری، جلد۱، ص۳) ایک موقع پر جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کفار کی سختیوں سے تنگ آکر مکہ چھوڑنے لگے تو ابن دغنہ نے آپ کا راستہ روک لیا اور کہنے لگا: ’’آپ جیسے شخص کو یہاں سے نہ جانا چاہئے، نہ ہم آپ کو جانے دیں گے، کیونکہ آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کے کام آتے ہیں‘‘۔ (بخاری، ج۱، ص۳۰۷)
غور کیجئے! حضرت سیدہ خدیجہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن پانچ صفات کا ذکر کیا تھا، ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق کی بھی وہی پانچ صفات بیان کی ہیں۔ احادیث کے ان اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو حضرت ابوبکر کی شخصیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دکھائی دیتی تھی، تبھی تو دونوں حضرات کی صفات کا بیان متن واحد کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی سخت اور صبر آزما شرائط مان لیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بہت مضطرب ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے: ’’کیا آپ نبی برحق نہیں ہیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’کیوں نہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’حضور! کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’پھر ہم دب کر شرائط کیوں مانیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرتا، وہ میری مدد فرمائے گا‘‘۔ عرض کیا: ’’کیا آپ نے نہیں فرمایا تھا کہ ’’ہم عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘۔ فرمایا: ’’ہاں! لیکن کیا میں نے اس سال طواف کرنے کے لئے کہا تھا؟‘‘۔ عرض کیا: ’’نہیں‘‘۔ پھر فرمایا: ’’میری خبر سچی ہے اور میں (کسی نہ کسی سال) بیت اللہ جاکر اس کا طواف کروں گا‘‘۔ (بخاری،ج۱، ص۳۸۰)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذہن سے ہنوز اضطراب دور نہ ہوا تھا، وہ اس گفتگو کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور جاکر کہا: ’’اے ابوبکر! کیا یہ اللہ تعالی کے برحق نبی نہیں ہیں؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’کیوں نہیں‘‘۔ کہا: ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’کیوں نہیں؟‘‘۔ حضرت عمر نے کہا: ’’پھر ہم دب کر شرائط کیوں مانیں؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’وہ اللہ کے رسول ہیں، اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اللہ تعالی ان کی مدد فرمائے گا، تم اپنے عقیدہ پر قائم رہو‘‘۔ حضرت عمر نے کہا: ’’کیا انھوں نے نہیں کہا تھا کہ ہم عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’کیوں نہیں، لیکن کیا انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ ہم اس سال طواف کریں گے؟‘‘۔ حضرت عمر نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’پھر یقین رکھو! انکی خبر سچی ہے اور وہ (کسی نہ کسی سال) ضرور بیت اللہ جاکر اس کا طواف کریں گے‘‘۔ (بخاری، ج۱، ص۳۸۰)

غور فرمائیے! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہر سوال کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے وہی بات کہی، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ گویا کہ حضرت ابوبکر کا ذہن، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کا ترجمان اور حضرت ابوبکر کی زبان، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی مظہر ہو گئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کی نظری اور عملی دونوں حیثیتیں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار و اعمال کا آئینہ بن گئی تھیں۔