خلیجی تعاون کونسل اور امریکہ

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
خلیجی تعاون کونسل اور امریکہ
خلیج تعاون کونسل کے ممالک امریکی اوباما نظم و نسق سے وہ جو چاہتے ہیں اس کو حاصل نہیں کرسکیں گے لیکن انہیں جس چیز کی ضرورت ہوگی وہی ملے گا ۔ حال ہی میں کیمپ ڈیوڈ چوٹی کانفرنس کے دوران خلیج تعاون ملکوں نے اوباما سے کئی ایک توقعات وابستہ کرلئے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ قربت کے بعد جی سی سی ملکوں میں جو بے چینی پیدا ہوئی ہے اس کو دور کرنے کیلئے اوباما نے یہ تیقن دیا کہ ان ملکوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے انہوں نے جو عہد کیا ہے اس کو پورا کریںگے۔ واضح طور پر یہاں عراق میں صدام حسین حکومت کے خلاف جارج بش کی فوجی کارروائی کا حوالہ دیاگیا جس میں صدام حسین کی حکومت کا زوال ہوا تھا ۔ جی سی سی ملکوں کو صدام حسین کی حکومت سے اس لئے خوف تھا کیوں کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے مشہور ہورہے تھے۔ اب ایران کی نیتوں پر بھی اسی طرح کا شک و شبہ پیدا کر کے امریکہ سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسسٹنٹ سکریٹری خلیج تعاون کونسل عبدالعزیز حماد الوثیق نے یہی امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایران نیو کلیئر معاہدہ کا خلیجی عرب ملکوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ صدر امریکہ نے عالم عرب میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کودیکھ کر یہ دعوی کیا ہے کہ وہ امریکہ کے حلیف ملکوں کو کسی بھی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھیں گے ۔ امریکی فوجی تائید کی ضرورت پڑنے پر خلیج میں کویت جنگ کے بعد پھر ایک بار سرگرم کردیا جائے گا ۔ ایک طرف امریکہ علاقائی سلامتی کو موثر بنانے کیلئے ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدہ کرنے جارہا ہے دوسری طرف اپنے خلیجی حلیف ملکوں کی تشویش کو تیقنات دے کر مطمئن کرانے کی کوشش کررہا ہے ۔ خلیجی ملکوں کو یہ اندازہ ہے کہ ایران کی نیو کلیئر طاقت سے کیا خطرات پیدا ہوں گے۔اس تشویش کے ساتھ ان 6 ملکوں کے گروپ جی سی سی کے ارکان نے کیمپ ڈیوڈ میں چوٹی کانفرنس منعقد کر کے حالات کا جائزہ لیا۔ خاص کر ایسے وقت میں جب شام سے لیکر یمن تک پورے خطہ میں اُتھل پتھل ہورہی ہے تو خلیجی عرب ملکوں کو فکر لاحق ہونا فطری بات ہے۔ تہران کی جانب سے اگر خلیجی ملکوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو اوباما اس کوشش کوناکام بنانے کا وعدہ کرتے ہیں یہ تو یقین دلایا جارہا ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کا نیو کلیئر معاہدہ خطہ میں سلامتی صورتحال کومضبوط بنانا ہے اوریہ معاہدہ سکیوریٹی مفاد میں ہوگا جب اوباما نے وعدہ کیا ہے تو خلیجی تعاون کے رکن ملکوں کو یہ بھی دکھایا جانا چاہئے کہ ایران کی نیو کلیئر طاقت پر مغرب کی نظر سے ایران کے تعلق سے غیر ضروری اندیشہ مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس وقت سعودی عرب اور دیگر خلیجی تعاون کونسل ملکوں کو خود ان کے ملکوں کی اندرونی انتشار پسند طاقتوں سے خطرات لاحق ہیں خلیجی تعاون کونسل کی اس چوٹی کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ سلمان نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔ امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ کئی مفادات کی فکر ہے اس لئے وہ کئی اہم مسائل میں سعودی عرب کے خلاف جس طرح کی کارروائی کر کے خلیجی تعاون ملکوں کو مطمئن کیا تھا یا تو امریکہ کومزید آمدنی کے ساتھ اپنے فوجی ہتھیاروں کی فروخت سے دولت حاصل کرنے کا موقع ملے گا اگرخلیجی ملکوں کو خارجی خطرات کا سامنا ہے تو پھر 1991 کی تاریخ دہرائی جائے گی اس سے سوائے خون ریزی اور دولت کی بربادی کے ساتھ امریکہ کی روزی مستحکم ہوگی۔ روایتی فوجی کارروائیوں کے درمیان امریکہ نے خلیجی تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کی پیشکش کی ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ خلیجی ملکوں کی فوجی طاقت کہاں کمزور اور کہاں مضبوط ہے ۔ اس طرح کی فوجی باتیں صرف اندیشوں کے تحت ہورہی ہیں ۔ لہذا خلیجی تعاون کونسل ممالک کو اپنی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے دوسری بڑی طاقت سے مدد لینے سے پہلے حالات کا موثر جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکہ کو تو اس بات میں مزہ آتا ہے کہ اسے کس ملک کی حفاظت کرنی ہے اور اسے کسی سے تنازعہ مول لینا ہے ۔ خواہ مخواہ حالات کو امریکی طاقت کے حوالے کرنے سے پہلے از خود موثر جائزہ بڑی عقلمندی ہوگی ۔