خلق خداکے ساتھ حسن سلوک اللہ سبحانہ کو بہت پسند ہے،اللہ سبحانہ نے انسانوں کو جداجدانعمتوں سے نوازاہے،کسی کو علم کی دولت دی،توکسی کو عقل ودانش اور فہم وذہانت دی،کسی کو مال ودولت کی نعمت عطاکی، تو کسی کو حسن وجمال کی ۔اوربھی بیش بہانعمتیں ایسی ہیں جومتفرق طورپر متفرق انسانوں کو بخشی گئی ہیں ۔ان نعمتوں کا حقیقی شکرانہ یہ ہے کہ جونعمت اللہ سبحانہ نے جس کسی انسان کودی ہے اس کا فائدہ اس کی ذات وخاندان کے ساتھ دیگرافراد انسانیت کو پہنچے ،مال ودولت ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیرخلق خداکی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، غریب کو بھی اس کی ضرورت ہے اورمالدارکوبھی،مالدارکو جوکچھ مال اللہ نے بخشاہے اس میں اس کی صلاحیتوں کا کوئی خاص دخل نہیں ،محنت تو سبھی کرتے ہیں لیکن اس کا پھل اوراس کا ثمرہ اللہ کی دین ہے ،جس کو جتنا چاہے دے۔ہوسکتاہے بہت محنت کرنے والے کو کم ملے اورمعمولی محنت کرنے والے کو زیادہ،یہ قسام اجل کی تقسیم کا مسئلہ ہے ۔یہ دراصل امتحان وآزمائش کی غرض سے ہے ، اس امتحان میں کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے جو جذبہ شکرگزاری سے معموردل کے ساتھ اس نعمت کاعملی شکرانہ اداکریں،مال کا عملی شکرانہ یہی ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اس کانفع پہونچے،خلق خداکوفائدہ پہنچانے کا ایک پسندیدہ طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کی رضا کیلئے صاحب ثروت افراددادودہش کو اپنا وطیرہ بنائیں جن کوجوصلاحیت اللہ نے دی ہے خلق خداکووہ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچائیں،قارون کواللہ سبحانہ نے مال ودولت کے بے نہایت خزانے دے رکھے تھے، ان کی کثرت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ اس کے خزانوں کے قفلوں کی کنجیاں اتنی وزنی اوربھاری تھیں کہ جس کو بڑے مضبوط اورطاقتورکئی افراد اٹھاتے تب بھی ان کے وزن کی تاب نہیں لاسکتے تھے اوران کے بوجھ سے ان کی کمرجھک جاتی تھی۔ قرآن پاک میں اس کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ’’ اللہ سبحانہ نے جوکچھ تجھے دیا ہے اس سے دارآخرت کی کامیابی کا خواہش مند بن اوردنیاسے ملنے والے اپنے حصہ کو فراموش نہ کر،اورجیسے اللہ سبحانہ نے تجھ پر احسان فرمایاہے توبھی دوسروں پر احسان کر‘‘(القصص: ۷۷)۔
اللہ سبحانہ نے کسی پر احسان کیا ہے تو اس کا شکرانہ یہ ہے کہ وہ بھی خلق خدا کے ساتھ احسان وسلوک کا برتائو کرے ، اللہ سبحانہ اوراس کے احکام پر ایمان انسان کی سیرت میں نمایاں انقلاب برپاکرتاہے ،مال ومتاع اس کی نظرمیں ہیچ ہوجاتے ہیں،رب تبارک وتعالی کی مرضی اس کو عزیزہوجاتی ہے ،دنیا میں رہتے ہوئے اس کی نگاہیں دنیاکی نہیں بلکہ آخرت کی نعمتوں کی متلاشی رہتی ہیں ، دنیا سے آنکھیں موندھ کر وہ ہرآن آخرت کی زندگی میں جھانکتاہے ،مال ودولت کو اپنے عیش وعشرت کی چیزنہیں سمجھتا بلکہ غربت کے سایہ میں زندگی کے دن بتانے والوں کے دردوکسک کو محسوس کرتاہے ،مصیبت زدہ انسانیت کی ضرورتوں کو پوری کرکے روحانی مسرت محسوس کرتاہے ،خلق خداکوفائدہ پہنچانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کیلئے خلق خداکی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے جذبہ سے اپنی محبوب جائیدادیں وقف کریں۔خلق خداپر احسان کرنے والے ہر دورمیں رہے ہیں لیکن خیرالقرون میں ایسے خاصان خدا زیادہ رہے ہیں جواپنی محبوب متاع اللہ سبحانہ کی رضا کیلئے خلق خداکی نفع رسانی کے جذبہ سے اس کے راستہ میں وقف کیا کرتے تھے ،قرآن پاک کی یہ آیت جب نازل ہوئی’’ہرگزبھلائی کو نہیں پاؤگے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راہ میں خرچ نہ کرو ‘‘(آل عمران:۳)تو حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا یا رسول اللہ میراوہ باغ جس میں’’ بیرحاء‘‘ ہے مجھے بہت زیادہ محبوب ہے میں چاہتاہوں کے اسے اللہ سبحانہ کی رضا کیلئے صدقہ کردوں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ باغ تو بڑانفع بخش ہے ،تم ایسا کرو کہ اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو،حسب ہدایت انہوں نے اپنے رشتہ داروں میں اسے تقسیم کردیا۔حضر ت سیدنا عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایک بڑی عمدہ زمین خیبرمیں ملی تھی ،حضر ت نبی پاک ﷺ کی خدمت اقد س میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اتنا زیادہ عمدہ اورنفیس مال مجھے اب تک نہیں ملا ،آپ ﷺ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اگرتم چاہو تو اصل مال کو روکے رکھواوراس کے منافع کو صدقہ کردو،آ پ نے ایساہی عمل کیا اوراس کو وقف کردیا۔حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ’’بیررومہ‘‘جو یہودی کی ملک تھا کوخرید کر وقف فرما دیا تھا،مدینہ پاک کے باشندے پانی کو ترس رہے تھے ۔عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بے نہایت شیریں پانی کا کنواں خرید کر ان کی ضروریا ت کی تکمیل اور ا ن کی تشنگی بجھانے کا سامان کیا۔معاشرہ کی صلاح وفلاح انسانیت کا درداوران کے ساتھ حسن سلوک اورمصیبت میں اس کے مداواکیلئے خلق خداکے ساتھ دل بستگی اورعملی تعاون بڑی اہمیت رکھتے ہیں،انسانیت کا اعلی مرتبہ یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے،اپنے لئے تو ہر کوئی جیتاہے لیکن انسانیت کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جیتے ہوئے دوسروں کیلئے جینے کا حوصلہ پیداکرے ۔
الغرض کتب احادیث میں کئی ایک نظائرہیں جوخلق خداکی نفع رسانی کی فکرکرنے کا پیغام دیتے ہیں،اسلام کی آمد کے بعد ہردورمیں خاصان خداکا ایک ایسا قافلہ تاریخ انسانیت میں ایک زرین باب رقم کرتا رہاہے ،جس نے خدمت خلق کواپنا نصب العین بنا لیا تھا ،انسانیت کے دردوکسک کومحسوس کرکے ان کی چارہ سازی کوانہوں نے مقصدحیات بنا لیا تھا ۔
حیدرآباد فرخندہ بنیاد بھی اپنے دامن میں انسانیت کے ایسے نایاب دُرراوراخیار گہربار رکھتاہے، جو انسان ہوکردوسرے انسانوں کے کام آنے کے جذبہ سے ہمیشہ سرشاررہے،اوراپنے شبستانوں کو روشن رکھنے کے ساتھ کاخ غریباں کو بھی روشن رکھنے کا مثالی کام کیا۔اس غرض کیلئے اپنی محبوب اورقیمتی املاک نیک مقاصد کیلئے وقف کیں ، خیرواحسان کے پیکربن کر اوقافی جائیداوں کی شکل میں احسان وسلوک کا ایک ایسا سائبان دردمند انسانیت کیلئے چھوڑاکہ جس کے سایہ میں خلق خدااپنی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرتے ہوئے چین سے زندگی بسرکرسکے ۔اوقافی جائیدادیں گویا ایک ایسا ہی سائبان رحمت ہیں جوقیامت تک آنے والی انسانیت کیلئے رحمت کا سایہ فراہم کرتی رہیں گی ،ملت اسلامیہ کے غریب غرباء ،محتاج ومساکین اس سے مقاصد وقف کے مطا بق مستفیدہوتے رہیں گے۔کھانے پینے ،رہنے سہنے اورتعلیم وصحت جیسے کئی ایک بنیا دی مسائل ان کیلئے کوئی بہت بڑاچیلنج نہیں ثابت ہوں گے بلکہ ان کی ان جیسی ساری ضرورتیں بفضل تعالی تکمیل پاتی رہیں گی۔ کئی ایک نیک دل اور مخیر، دیدئہ بینا ودل درد مندرکھنے والے افرادنے مستقبل میں درپیش مسائل کا ادراک کرکے انسانیت کی بہی خواہی پر مبنی کار خیرکی ایسی صاف وشفاف اورسیدھی راہ بنائی ہے جو کامیابی کے ساتھ آخرت کی دائمی منزل تک پہنچاتی ہے اور جوہردورمیں آنے والوں کیلئے لائق تقلیدہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اوقاف کی پوری دیانت داری کے ساتھ حفاظت کی جائے ،اورمقاصد وقف اورمنشاء واقف کابھرپورلحاظ رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کی کوئی ایسی یقینی صورت بنائی جائے کہ جس سے مقاصد وقف کی حفاظت ہوتی رہے۔ان جیسے محسنین کویاد کیا جانا چاہئے تاکہ ان کے اخلاص عمل کی روشنی سے دوسرے سبق حاصل کرسکیں،اوران کے اخلاص عمل اورخلق خداکیلئے ان کی طرف سے کی جانے والی کاوشوں سے دوسروں کو روشناس کیا جاسکے، اوران کویادرکھنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ صاحبان مال ودولت اپنی زائدجائیدادیں راہ خدامیں وقف کریں۔موجودہ احوال بڑے پیمانہ پر اوقافی جائیدادوںکی اتلاف کے ہیں،کئی ایک اوقافی جائیدادیں ہیں جن پر حکومتیں قبضہ جمائی ہوئی ہیں،جس سے مقاصد وقف کو بڑانقصان پہنچاہے،سنا جاتا ہے کہ کئی ایک اوقافی جائیدادیں غیرمسلم برادران وطن کے تصرف میں ہیں ،اوران کا استعمال مقاصد وقف کے خلاف ہورہا ہے اورافسوسناک پہلویہ ہے کہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں کئی ایک اوقافی املاک تباہ وتاراج ہورہی ہیں۔اورکئی ایک دینی مدارس وتنظیمیںاورمساجد ہیں جن کی اوقافی جائیدادیں کڑوڑہا روپیہ کی ہیں ان پر ناجائزقابضین قبضہ جمائے ہوئے ہیں ،اوروہ ادارے اورمساجد بالکلیہ مفلس وقلاش ہیں،ان اداروںکی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے ان کے ذمہ دار جھولی پسارے دردر کی خاک چھان رہے ہیں ،ان کی موقوفہ جائیدادوں سے کوئی فائدہ ان اداروں کو حاصل نہیں جن کیلئے وہ وقف کی گئی ہیں۔اوقافی جائیداوں میں جوکچھ ناجائزتغلب وتصرف ہورہا ہے بڑے پیمانہ پر اس کی اصلاح ہونی چاہئیے،حکومت ، قائدین ،دانشوران ملت ،علماء وصلحاء ہر ایک کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے آنے،اوقافی جائیداوں کو تباہی وبربادی سے نہ صرف بچانے بلکہ امت کے لئے ان کومفیداورثمرآوربنانے میں اپنا حصہ اداکرنے کی ضرورت ہے۔