خلع کے لئے شوہر کی رضامندی

صدائے حق شہر حیدرآباد کا وہ ادارہ ہے جس نے ملت اسلامیہ کے حساس مسائل پر بے باک آواز کو بلند کیا ہے ، نیز مسلم کمیونٹی کو اغیار کے شرپسند عزائم و مقاصد سے آگاہ کرنے اور شعور بیدار کرنے کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ہے۔ ملت اسلامیہ کے انہی حساس مسائل میں ایک مسئلہ مظلوم خواتین کا ہے جو شوہر اور سسرال والوں کے ظلم و ستم کی شکار ہیں ، شوہر نہ ان کو طلاق دیتے ہیں اور نہ خلع قبول کرتے ہیں اور نہ ہی عزت و احترام سے اپنے گھر میں رکھتے ہیں بلکہ حددرجہ تکلیفیں دیتے ہیں ، نان و نفقہ کا اہتمام نہیں کرتے ، دوسری شادی کرلیتے ہیں اور پہلی بیوی کو معلق چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض خواتین عدالت سے رجوع ہوکر فسخ نکاح کروالیتی ہیں اور بعد ختم عدت دوسری شادی کرلیتی ہیںجبکہ شریعت اسلامی میں صرف مسلمان حاکم و جج کو مسلمانوں کے اُمور کی ولایت حاصل ہے ۔ وہ اگر فسخ کرے تو شرعاً قابل نفاذ ہے چونکہ غیرمسلم جج کو مسلمانوں کے اُمور پر ولایت کا حق حاصل نہیں ہے اس لئے شرعی لحاظ سے غیرمسلم جج کے ذریعہ نکاح فسخ کیا جائے تو وہ قانونی و دنیوی طورپر تو نافذ ہوگا لیکن شرعی و اسلامی رو سے نہیں ۔ اس کے باوصف کئی خواتین دوسری شادی کررہی ہیں اور قاضی حضرات عدالت کے فسخ نکاح کی بنیاد پر ان کا دوسرا نکاح بھی پڑھوارہے ہیں جوکہ شرعاً غیردرست ہے۔ نیز بعض وہ خواتین ہیں جو شوہر سے طلاق و خلع کے بغیر علحدگی اختیار کرلیتی ہیں اور ایک عرصہ ایسا ہی گزارتی ہیں جب کوئی رشتہ آتا ہے تو طلاق ، خلع اور فسخ کے بغیر ہی دوسرے شخص سے شادی کرلیتی ہیں ، یہ پہلو بھی شرعاً ناجائز و حرام ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض اطلاعات ایسی بھی آئی ہیں کہ بعض مسلمان خواتین قید نکاح سے چھوٹنے کے لئے ارتداد کا راستہ تک اختیار کی ہیں ، کیونکہ بیوی اگر کافر ہوجائے تو نکاح ، طلاق و خلع اور فسخ کے بغیر ہی خودبخود ختم ہوجاتا ہے ، بعد ازاں وہ تجدید ایمان کرکے دوسری شادی کرلیتی ہیں یہ کس حد تک سنگین مسئلہ ہے اور اگر کلمہ کفر زبان سے نکالتے ہی موت واقع ہوجائے تو ہمیشہ کیلئے وہ جہنم رسید ہوگئی ۔ علاوہ ازیں خواتین کا ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو مانباپ کے گھروں میں ایسی ہی لٹکی ہوئی ، سسکتی ہوئی زندگی گزار رہی ہیں ۔ افسوس کی بات ہے کہ ملت کے اس اہم و نازک مسئلہ پر شہر حیدرآباد کے کسی ادارہ و تنظیم نے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں کی ۔ ادارۂ صدائے حق نے اس جانب توجہہ کی اور ہندوستان کے تمام دینی مدارس و جامعات سے رابطہ کیا اور فتاوی طلب کئے ، اس مسئلہ کی یکسوئی کے لئے اپنے انداز میں حتی المقدور جدوجہد کی جب اس کابظاہر حل نہیں نکلا تو وہ مایوسی کا شکار ہوگئے ، چونکہ وہ اس مسئلہ کی یکسوئی کے لئے پرعزم و مصر تھے تو انھوں نے اس کا آسان حل تلاش کرلیا کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں ، عورت بذات خود اپنا فیصلہ کرسکتی ہے اور وہ خلع حاصل کرنے کیلئے شوہر کی قبولیت یار ضامندی کی محتاج نہیں ۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف فقہ اسلامی کے متفق علیہ مسئلہ کو تبدیل کیا بلکہ راست قرآن و حدیث کے واضح ارشادات کو بدل ڈالا اور ایسی بدعت و ضلالت کی بنیاد رکھی جس کی کوئی اصل اور وجہہ نہیں جبکہ فقہ اسلامی میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے لیکن ادارے اور تنظیمیں اس جانب سنجیدگی سے دلچسپی نہ لیں تو ملت اسلامیہ کے مقتدا افراد اس کے ذمہ دار ہیں ، شریعت اسلامی نہیں ۔
ایک عرصہ سے یہ شکایت وصول ہورہی ہیں کہ صدائے حق شرعی کونسل یکطرفہ بلکہ خواتین کے رجوع ہونے پر علحدگی کے فیصلہ کررہی ہے ، اس پر متزاد کہ صدائے حق شرعی کونسل بہ بانگ دہل اخبارات میں اشتہارات شائع کرنا شروع کردیا کہ خواتین کو خلع کے لئے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں، اس گمراہی اور بے جا جرء ت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ، شریعت کے اٹل قوانین پر ناقص فہم اور   من چاہی تاویل و تشریح کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، یہ شریعت اسلامی ہے کسی مخصوص فرد یا ادارہ کی میراث نہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں اولوالعزم صحابہ کرام اظہار رائے سے لرزہ براندام ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جن کی رائے کے مطابق قرآنی آیات کانزول ہوا ہے ، جن کی زبان فیض ترجمان کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے   ’’زبان حق‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے ، ان کا معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی اہم مسئلہ پیش ہوتا تو وہ برائے راست فیصلہ صادر نہیں فرماتے بلکہ اصحاب بدر کو جمع فرماتے ، ان سے مشورہ کرتے بعد ازاں قطعی فیصلہ صادر فرماتے درانحالیکہ ان کی موجودگی میں اجلۂ فقہاء چھوٹے بچوں کے مانند نظر آتے ۔
’’قضاء ‘‘ مثلاً فسخ نکاح کا معاملہ تو بہت اونچا ہے ، صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین فتویٰ دینے سے خوفزدہ رہتے چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے مسجد میں ایک سو بیس صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ ان میں سے جو حدیث بیان کرنیوالے تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کا بھائی حدیث بیان کردے اور انھیں حدیث بیان نہ کرنی پڑے اور ان میں جو مفتی تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی فتویٰ دیدے اور خود انھیں فتویٰ دینا نہ پڑے ۔ ( جامع ابن عبدالبر جلد دوم ص :۱۶۳)
حضرت ابن سیرین رحمتہ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابومسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی کہ تم امیر نہیں ہو پھر بھی تم لوگوں کو فتویٰ دیتے ہو ؟ جسے امارت کی راحت ملی ہے اسی کو امارت کی مشقت بھی اٹھانے دو یعنی جو امیر ہے اُسی کو فتوی کی ذمہ داری اُٹھانے دو ۔ ( نفس حوالہ جلد ۲ ص ۱۶۶)
حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگوں کو فتویٰ دینے والے تین طرح کے آدمی ہوتے ہیں ایک تو وہ جو قرآن کے ناسخ و منسوخ کو جانتا ہے دوسرا وہ جو مسلمانوں کاامیر ہو جس کو فتویٰ دیئے بغیر چارہ نہیں اور تیسرا احمق شخص ۔( نفس حوالہ )
سورہ مائدہ کی آیت ۴۴ میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر کافر قرار دیا، اسی سورہ کی آیت ۴۵ میں ان کو ظالم کہا اور آیت ۴۷ میں فاسق و فاجر فرمایا ۔
ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق جس کو قاضی ( فیصلہ کرنے والا ) بنایا گیا ہو درحقیقت اس کو بغیر چھری کے ذبح کیا گیا ہے ۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے : قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں دو قاضی دوزخی ہیں اور ایک قاضی جنتی ہے ۔ ایک وہ شخص جو حق کے سوا فیصلہ کرے جبکہ حق معلوم ہو تو وہ دوزخی ہے اور ایک وہ قاضی جو عالم نہ ہو اور وہ لوگوں کے حقوق تلف کردے تو وہ بھی دوزخی ہے ۔ ایک وہ قاضی جو حق کے ساتھ فیصلہ کرے تو وہ جنتی ہے ۔ (ترمذی )