خلاقِ عالم کی کار فرمائی

مولانا غلام رسول سعیدی
عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ اس عالم اسباب میں انسان کی پیدائش مردوزن کے اختلاط سے وجود میں آتی ہے، لیکن اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے اور حضرت حوا علیہا السلام کو بغیر عورت کے اور حضرت آدم علیہ السلام کو مرد اور عورت دونوں کے بغیر پیدا کرکے یہ ثابت کردیا کہ اس نے انسان کی تخلیق کے لئے مرد اور عورت کے اختلاط کو ایک عام سبب ضرور بنایا ہے، لیکن اس کی عظیم قدرت ان تمام اسباب سے بالاتر ہے۔ وہ چاہے تو مٹی کے ایک ڈھیر سے حضرت آدم علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبی کی تخلیق کردے اور وہ چاہے تو نطفہ کی ایک بوند سے انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع کردے۔

اب سوچئے کہ نطفہ کی ایک بے جان بوند سے یہ جیتا جاگتا انسان کس طرح وجود میں آگیا۔ عملی تحقیقات اور سائنس کے روز افزوں تجربات کے باوجود سائنس داں آج تک کسی بے جان مادے سے کسی جاندار شے کو وجود میں نہیں لاسکے۔ اب تک جو ثابت ہو چکا ہے، وہ یہ ہے کہ نطفہ جوہر حیات تو ہے، لیکن خود زندگی سے خالی ہے۔ پھر جو چیز خود حیات سے عاری ہو، وہ ایک صاحب حیات کی موجد کیسے ہو سکتی ہے؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ بے جان نطفہ کی یہ بوند اپنے اندر علم و ادراک اور قوت و توانائی کا وہ جوہر رکھتی ہے، جس سے وہ ایک مکمل انسان کی صورت گری پر قادر ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انسان مکمل ہو جانے کے بعد اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اپنے جسم کے بالوں میں سے کسی ایک بال کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرسکے؟… تو جب یہ انسان مکمل اور طاقتور ہونے کے باوجود اپنے اندر تغیر و تبدل کی قدرت نہیں رکھتا تو جس وقت یہ نطفہ کی بوند کی شکل میں تھا، اس وقت یہ اپنے اندر تغیر اور نشو و نما کی طاقت کیسے رکھ سکتا تھا؟۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ انسان کی تخلیق اور تصویر و تشکیل میں اسی خلاق واحد کا دست قدرت کار فرما ہے۔
انسان کی تخلیق اس کے نطفہ میں موجود ایک انتہائی باریک جرثومہ سے ہوتی ہے اور جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچتا ہے تو یہ جرثومہ عورت کے رحم میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے،

جو اس جرثومہ کی طرح انتہائی باریک ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے امتزاج سے ایک باریک خلیہ بن جاتا ہے اور یہی خلیہ حیات انسانی کا نقطۂ آغاز ہے اور اس خلیہ کا وجود میں آجانا ہی استقرار حمل کی علامت ہے۔ پھر اللہ تعالی اس خلیہ کو علقہ یعنی جمے ہوئے خون کی شکل میں لاتا ہے، پھر اس علقہ کو تدریجاً مضعہ یعنی گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل کرتا ہے، پھر اس گوشت کے ٹکڑے کی صورت گری کی جاتی ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کو انسانی اعضاء کے قالب میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو مرد یا عورت کی ساخت عطا کی جاتی ہے۔ استقرار حمل کے چار ماہ بعد اس میں روح ڈال دی جاتی ہے۔ پھر عورت کے پیٹ میں اس کو غذا پہنچاکر اس کی جسامت بڑھائی جاتی ہے اور اس کے دماغ میں وہ تمام صلاحیتیں رکھی جاتی ہیں، جن کے سبب سے وہ آگے چل کر اپنی زندگی میں تعلیم و تربیت اور ماحول کے زیر اثر کسی ڈاکٹر، انجینئر، سیاست داں، عالم دین، ولی کامل، تاجر یا ایک جاہل مزدور اور بدمعاش غنڈے کی شخصیت میں معاشرہ کے اندر اُبھرتا ہے۔

انسانی تخلیق کے ان تمام مراحل میں انسان کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ اپنے نطفہ کو عورت کے رحم تک پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے نطفہ سے ایک خاص جرثومہ کو نسوانی بیضہ سے کون ملاتا ہے؟، پھر اس امتزاج کے نتیجہ کو پہلے علقہ، پھر مضغہ کی شکل میں کون لاتا ہے؟، پھر اس مضغہ کو الگ الگ انسانی صورتوں کا لباس پہناکر چار ماہ بعد اس میں روح کون پھونکتا ہے؟ اور یہ فیصلہ کرنا کس کا کام ہے کہ اس شخص کو سلیم الاعضاء بنانا ہے یا محتاج اور اپاہج؟۔ پھر اس کے ذہن اور دماغ میں مختلف شعبوں کی الگ الگ صلاحیتوں کو کون رکھتا ہے اور نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں اس کو مسلسل غذا اور نشو و نما کا مادہ کون فراہم کرتا ہے؟ کیا یہ تمام کام خود وہ عورت کرتی ہے؟ یا کوئی ڈاکٹر اور حکیم اپنی ادویات سے اس عمل کو جاری رکھتا ہے، یا پھر یہ کسی سائنس داں کا شاہکار ہے؟ یا بے جان بت جو خود سے ہل بھی نہیں سکتے، وہ نطفہ کی ایک بوند کو جیتا جاگتا انسان بنادیتے ہیں؟۔ پھر آخر یہ کس کا کارنامہ ہے؟۔ کیا اب بھی عقل یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ خدائے واحد کے سوا ان افعال کا اور کوئی خالق نہیں ہے؟۔