پہلے زمیں کے حسن سے جی چھک تو لے اَریب ؔ
پھر دیدِ مہر و ماہ کی خواہش ضرور ہے
خلائی مشن اور سٹیلائیٹ
ہندوستان کو سائنس کے شعبہ میں ترقی دینے کیلئے ہمارے سائنسدانوں نے انتھک جدوجہد کی ہے۔ اس کا نتیجہ ہیکہ آج ملک دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کی برابری کرنے کیلئے سائنسی میدان میں کوشاں ہے۔ سٹیلائیٹس کو داغنے کی صلاحیتوں میں بھی ہندوستانی سائنسدانوں کی صلاحیتیں قابل ستائش ہیں۔ اس لئے پیر کے دن ہندوستانی سائنسدانوں نے پی ایس ایل وی سٹیلائیٹ کو کامیابی سے داغا اس کے ہمراہ چار بیرونی سٹیلائیٹس (دو کناڈا، ایک جرمنی اور ایک سنگاپور) کو بھی داغا گیا۔ ہندوستانی سٹیلائیٹس ترقیاب فرانس کی مسابقت سے آگے بڑھ گئی ہے۔ پی ایس ایل وی کا یہ 28 واں مسلسل کامیاب تجربہ ہے۔ سری ہری کوٹہ کے ستیش دھون اسپیس سنٹر سے سٹیلائیٹس کو داغنے کا مشاہدہ کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے سائنسدانوں کی صلاحیتوں اور کارناموں کی ستائش کرتے ہوئے انہیں یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ ایسے سٹیلائیٹس کو فروغ دیں جو ایشیائی ملکوں خاص کر سارک ملکوں کے لئے کام آسکیں۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی خارجہ پالیسی میں مثبت اور سلجھی ہوئی تجاویز کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے آنے والے دنوں میں پڑوسی ملکوں کے لئے خاص کر سارک رکن ممالک کے ساتھ ہندوستان کے روابط کو مزید مضبوط کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بلاشبہ ہندوستان کی سائنسی ترقی نے آج ہمارے ملک کو اڈوانس اسپیس پروگرام میں دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ 5 تا 6 ملکوں کے عالمی گروپ میں ہندوستان کو شمار کیا جاتا ہے تو یہ شاندار کارکردگی اور آگے بڑھنے کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ پولار سٹیلائیٹ لانچ وہیکل (پی ایس ایل وی ۔ سی 23) نے اب تک 67 سٹیلائیٹس داغے ہیں ان میں 40 سٹیلائیٹس بیرونی 19 ملکوں کے ہیں۔ پیر کے دن بھی داغے گئے سٹیلائیٹس ترقی یافتہ ملکوں جیسے فرانس، کناڈا، جرمنی اور سنگاپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ خلائی مشن میں ہندوستانی سیاستدانوں کی کامیاب مساعی کا یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ بیرونی طاقتور ملک ہندوستان کی اسپیس ٹیکنالوجی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ساری دنیا میں جس تیزی سے ترقی ہورہی ہے، لوگوں کو بیٹھے جگہ عالمی دنیا ایک گلوبل ولیج کے طور پر دکھائی دے رہی ہے تو سٹیلائیٹس کی ترقی سے انسانی زندگیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے سٹیلائیٹس داغے جانے کیلئے وزیراعظم کا مشورہ بھی قابل غور ہے کیونکہ اس سے روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ پی ایس ایل وی کے 26 ویں سٹیلائیٹس کو مدار میں داغے جانے کے بعد چھوٹے سٹیلائیٹس کی افادیت اور ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ پی ایس ایل وی C-23 سائز میں چھوٹا ہے مگر اس کے سپرد کی گئی ذمہ داریاں بڑی ہیں۔ پیام رسانی اور ساری دنیا میں بروقت ترسیل کے لئے سٹیلائیٹس اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان کے پہلے سٹیلائیٹ آریا بھٹ نے بنگلور میں سائنسدانوں کے لئے ایک ایسی بنیاد پیدا کی تھی جس کے ذریعہ آج ہمارے سائنسدانوں نے ساری دنیا کو دکھا دیا ہیکہ ہندوستان بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں نئی اختراعی صلاحیتوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا بھر میں سرویس فراہم کرنے والا اہم ملک بن گیا ہے۔ اس میں مزید ترقی دی جائے تو روزگار کے کئی مواقع ملیں گے۔ اس کے لئے حکومت ہند کو سائنسدانوں کے لئے تمام ترسائنسی سہولتیں فراہم کرنے میں فراخدلانہ مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سالانہ بجٹ میں اضافہ کے ذریعہ خلائی سائنس کے شعبہ کو ترقی دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ پوکھران میں نیوکلیئر تجربات کے بعد ہندوستان ساری دنیا کے طاقتور گروپ کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر شعبہ میں ترقی کیلئے اس کی جدوجہد عالمی ستائش کی مستحق بن رہی ہے۔ ساری دنیا میں ہندوستان کی بات کو بھی توجہ سے سنی جارہی ہے۔ اب اس ترقی کو مضبوطی عطا کرنے کیلئے ضروری ہیکہ ہم اپنے سائنسدانوں اور شعبہ سائنس کو عصری تقاضوں سے لیس کریں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سائنس کے شعبہ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت کو محسوس کیا ہے تو وہ اپنی سیاسی تدبر کی کڑی آزمائش کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوں گے تو سائنس کے شعبہ میں ہندوستان کی ترقی رنگ لائے گی۔ ہندوستان نے اب تک خلائی مشن کے طور پر اندرون ملک سٹیلائیٹس کے داغنے کے علاوہ بیرون ملک سٹیلائیٹس کو بھی کامیابی سے داغا ہے۔ یہ سٹیلائیٹس جرمنی، فرانس، اسرائیل، اٹلی، جاپان، کوریا، سوئٹزرلینڈ اور نیدرلینڈ کے علاوہ برطانیہ، ارجنٹینا، الجیریا وغیرہ نے تیار کئے تھے۔ خلائی مشن ویسے آسمان میں ہونے والی سائنسی جدوجہد کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی زندگی سے دور ضرور ہے مگر روزمرہ زندگی میں خلائی مشن کا اہم رول اٹوٹ حصہ ہے۔ آج ساری انسانیت مواصلاتی نظام، تصویری ترسیل پیام رسانی کے لئے سٹیلائیٹس پر ہی دارومدار رکھتی ہے۔ اس کو مزید ترقی دینے سے فروغ انسانی وسائل کو مستقبل میں مزید کئی مراحل پر کامیابی ملے گی۔