خطرناک شرارت

یہ دونوں جب مل کر شرارتیں کرتے تو خدا کی پناہ۔ خالد نے عامر کو اپنے نئے منصوبے سے آگاہ کیا، عامر نے بھی فوراً ہی آمادگی ظاہر کردی شاید دونوں کو شرارتوں میں بڑا مزہ آتا تھا۔ خالد کے والدین کا معمول تھا کہ وہ کھانے کے بعد چہل قدمی کیا کرتے تھے خالد بھی اکثر ان کے ساتھ جاتا مگر آج اس نے امی ابو سے اپنے دوست عامر کے گھر جانے کی اجازت مانگی جو انہوں نے بہ خوشی دے دی، اور ساتھ ہی ہدایت بھی کی کہ کوئی شرارت مت کرنا، خالد نے حسب معمول بات سنی ان سنی کردی، امی ابو جانے کے بعد خالد نے ایک مضبوط رسی تلاش کی اور عامر اپنے گھر میں موجود کالے رنگ کے پینٹ کا ڈبہ لے آیا جو عامر کے ابو گھر کی جالیوں پر پینٹ کرنے کی غرض سے شام کو ہی لائے تھے خالد اور عامر دونوں نے مل کر رسی پر کالا رنگ کیا اور اب دونوں نے اپنی شرارت کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ دونوں گھر سے باہر نکلے، اس سڑک پر ٹریفک دن میں بھی کم ہوتا تھا اور شام ہونے کے بعد تو صرف سائیکل سوار ہی گزرتے تھے

زمین سے کچھ اونچائی پر رسی کا ایک سرا عامر نے سڑک کے ایک طرف لگے کھمبے سے باندھ دیا، کھمبے پر لگی لائٹ تو عرصے سے خراب تھی اس لیے سڑک پر اندھیرا بھی تھا، رسی کا دوسرا سرا خالد نے اپنے گھر کے گیٹ کے ستون سے باندھ دیا۔ اب دونوں اس شرارت کا نتیجہ دیکھنے کے منتظر تھے، تھوڑی دیر بعد ایک سیکل سوار تیزی سے آتا دکھائی د یا، رات کے وقت اسے رسی ویسے بھی نظر نہ آتی مگر یہاں تو خالد اور عامر نے اس پر کالا رنگ کیا ہوا تھا سائیکل سوار قریب آیا تو رسی اس کے سینے سے ٹکرائی اور لڑکھڑاتا ہو نیچے آرہا، خالد اور عامر دونوں گھر کے پاس ایک کونے میں کھڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، اتنے میں ان کے امی ابو آگئے انہوں نے سائیکل سوار کو اچانک سڑک پر گرتے دیکھ لیا تھا، قریب آئے اور سہارا دے کر اپنے گھر کے صحن تک لائے انہوں نے فوراً ہی پہچان لیا یہ شہزاد تھا، خالد کا ماموں زاد بھائی۔ نیچے گرنے کے باعث شہزاد کے سینے اور کہنی پر چوٹ آئی تھی اور خون بھی بہہ رہا تھا خالد کے ابو نے فون کرکے فوراً ڈاکٹر کو بلوایا اور شہزاد کی مرہم پٹی کی گئی۔ خالد اور عامر اپنی شرارت کا انجام دیکھ کر بہت شرمندہ تھے اور امی ابو کو بھی معلوم ہوچکا تھا کہ خالد اور عامر کی حرکت ہی ہوسکتی ہے، ان کی یہ شرارت شہزاد کے لیے کتنی تکلیف کا باعث بنی تھی دونوں نے شہزاد اور والدین سے معافی مانگی اور آئندہ کے لیے شرارت سے توبہ کرلی۔