حیدرآباد ۔ 22 ۔ جولائی : ( ابوایمل ) : ہندوستان میں یہ بات مشہور ہے حجاب اور پردہ داری ، شرم و حیا کے معاملہ میں حیدرآباد کی خواتین سب سے آگے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری مشرقی خواتین شرم و حیا کے معاملہ میں ملک بھر کی خواتین کے لیے مثال ہیں ۔ تاہم رمضان المبارک کے دوران بازاروں کو دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ ہم لوگ اس ماہ مقدس میں عبادتوں ریاضتوں صدقہ و خیرات جیسے بہترین اعمال کے بجائے شاپنگ کو کافی اہمیت دینے لگے ہیں ۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ بڑی بیدردی سے ہم نے اس شاپنگ کو رمضان شاپنگ ، رمضان میلہ ، رمضان حلیم وغیرہ کے نام دے رہے ہیں ۔ آج ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آخر سڑکوں پر جو سروں کا سمندر دکھائی دے رہا ہے ۔ وہاں شرم و حیا بھی باقی ہے یا نہیں ۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بازاروں میں خریدی کیلیے جانے والی ہماری ماں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اس بات کا احساس تک نہیں غیر مردوں کے دھکے کھانے پڑ رہے ہیں ۔
یہ منظر آپ بھی سلطان بازار ، مدینہ بلڈنگ ، چارمینار اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ بعض سڑک چھاپ فرہاد اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کچھ فروخت کرنے کے بہانہ خواتین کے ہجوم میں گھس پڑتے ہیں اور بلاکسی خوف و خطر کے دھکے دیتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ ہماری سادہ لوح خواتین اور بچیوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ بد نظر بدنیت نوجوان کس انداز میں ان کے درمیان سے گذر رہے ہیں ۔ شہر میں ایک اور بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہماری خواتین عصر ، مغرب یا پھر رات کے وقت میں خریداری کو ترجیح دے رہی ہیں ۔ جہاں تک خریداری کی بات ہے اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوناچاہئے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اگر بازار جاناہی چاہتی ہوں تو اپنے والد ، شوہر ، بھائی یا پھر بیٹوں کے ہمراہ آسکتی ہیں جس سے ان کی حفاظت بھی ہوجائے گی اور کوئی بد نظر بدقماش ، سڑک چھاپ دھکہ بھی نہیں دے سکے گا ۔ یعنی شہریوں اور پردہ نشین دختران ملت کے خیال میں خواتین کو ہر حال میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور پولیس کو بازاروں میں خصوصی حفاظتی انتظامات کرنے چاہئے تاکہ خریداری میں مصروف خواتین چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں ۔ ساتھ ہی سارقین جیب کتروں کو بھی کسی قسم کا موقع نہ مل سکے ۔ قارئین ہمارے بازاروں کو دیکھ کر خلیفتہ المسلمین حضرت عمر فاروق ؓ کا وہ جواب یاد آرہا ہے جو آپ نے کسی سائل کے سوال پر دیا تھا ۔ سوال یہ تھا کہ اس دنیا میں زندگی کس طرح گذارنی چاہئے ؟ آپ نے فرمایا دنیا دراصل خار دار کانٹے والی گزرگاہ ہے اس میں سے ایسے گذر جائیں جس سے جسم پر کوئی کانٹا نہ چبھنے پائے یعنی تمام برائیوں سے خود کو بچاتے ہوئے آخرت کا سامان کرلیں ۔ بہرحال ہمیں دنیا اتنی ہی استعمال کرنی چاہئے جتنی اس کی ضرورت ہو ۔ خریداری اتنی نہ ہو کہ اسراف اور فضول خرچی کی حد میں چلی جائے ۔۔